پشاور (جیوڈیسک) محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا کے تمام انتظامی واصلاحاتی اختیارات ایک برطانوی کمپنی کے سپرد کر دیے گئے۔
ٹیکنیکل اسسٹنٹس کے طور پر قائم ہونے والی اس کمپنی کا دفتر ایک بڑے مقامی ہوٹل میں قائم کیا گیا ہے جس نے اب محکمہ تعلیم کو اپنے حصار میں جکڑ لیا ہے۔ مخلوط حکومت میں شامل سیاسی پارٹی نے بھی چپ سادھ لی۔
خیبر پختونخوا میں برسراقتدار آنے والی حکومت نے تعلیم میں اصلاحات کے نام پر نہ صرف سرکاری خزانہ سے اربوں روپے خرچ کیے بلکہ دوسری جانب مختلف ادوار میں غیر ملکی ڈونرز نے بھی ڈالرز اور پاؤنڈز میں عطیات دیے۔
اس کے باوجود تعلیم کا آوے کاآوا بگڑا ہوا ہے، موجودہ حکومت نے برسراقتدار آ کر کچھ ایسی ہی اصلاحات کے دعوے کیے لیکن موجودہ حکومت کا طریقہ کار دیگر حکومتوں سے بالکل مختلف ہو کر سامنے آیا ہے۔
پشاور کے بڑے مقامی ہوٹل میں برطانوی حکومت کے تعاون سے ایک کمپنی نے اپنا دفتر قائم کیا ہے جس کا مقصد محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم میں اصلاحات کے نفاذ کیلیے انھیں فنی خدمات پیش کرناتھا مگر کمپنی کچھ ہی عرصہ میں محکمہ تعلیم کا سارا نظام چاہے۔
وہ اصلاحات کے نام پر ہو یا پھر انتظامات کے نام پر اپنے نام کر دیا ہے۔ محکمہ کے صوبائی سیکریٹریٹ میں ای ایم آئی ایس مذکورہ انٹرنیشنل کمپنی کیلیے پرنٹنگ کے طور پر کام کررہا ہے جس کے باعث اس سیکشن کا اصل مقصد بھی ختم ہو کر رہ گیا ہے۔