تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ تعلیم کا مطلب حصول علم سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ تعلیم سے نہ صرف شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے بلکہ یہ انسان کو سیاسی طور پر بھی سرگرم رکھتی ہے۔اور یہ بات ہمیشہ حکمرانوں کے مفاد میں نہیں رہی۔ علم طاقت ہے۔ یہ نظریہ چار صدیاں پرانا ہے۔ انگریز فلسفی فرانسس بیکن نے اس جیسے اور کئی دیگر نظریات کے ذریعے روشن خیالی کے فلسفے کی بنیاد رکھی تھی۔ اس نظریے کے اہمیت اور افادیت آج بھی کم نہیں ہوئی۔ علم طاقت ہے۔ تعلیم، اقتصادی اور سیاسی ترقی، جمہوریت اور سماجی انصاف کے لیے ایک بنیادی شرط ہے، جس کا مشاہدہ ہم آج بھی دنیا بھر میں کر سکتے ہیں۔عالمی برادری ایک عرصے سے یہ حقیقت تسلیم کر چکی ہے کہ تعلیم کے بغیر ترقی ناممکن ہے۔ چین کی تیز رفتار ترقی، تعلیم کے شعبے میں کی جانے والی اصلاحات کے مرہون منت ہے۔پچیس برس سے کم عمر ہر نوجوان کے لیے تعلیم ایک بنیادی موضوع ہے، جو نوجوانوں کی زندگی کا تعین کرتا ہے۔ چینی حکومت اس بات کی بھی واضح مثال ہے کہ وہاں مزید آزادی دیے بغیر تعلیم پر زور دیا جا رہا ہے لیکن اس طرح کا نظام اسی وقت تک چلتا ہے، جب تک اکثریت اس کے پیچھے کھڑی ہے۔
مستقبل میں کوئی بھی غیر دستوری حکومت، اس قابل نہیں ہو گی کہ وہ تعلیم یافتہ اکثریت کا مقابلہ کر سکے۔ جب اتنی بڑی تعلیم یافتہ آبادی اس مقام پر آ جائے گی تو جمہوری تبدیلی کے لیے ذمہ داری کا حجم بھی بڑھ جائے گا۔ اس ضمن میں روس کا حوالہ موجود ہے، اسی طرح چین اور عرب ریاستوں کی مثالیں بھی لی جا سکتی ہیں۔ زمبابوے، افغانستان اور شمالی کوریا جیسے ملک مشکل چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان ملکوں کی زیادہ تر آبادی غربت کی زندگی بسر کر رہی ہے اور وہ ریاستی پراپیگنڈے کے حصار میں ہے۔ جب تک ایسے ملکوں کی اکثریت تعلیم سے محروم ہے تب تک وہ معلومات کا تقابلی جائزہ کرنے سے قاصر رہے گی اور ایسے لوگوں کو وہ نیٹ ورک بھی دستیاب نہیں کہ جہاں وہ خیالات کا تبادلہ کر سکیں، ایسی صورت میں مطلق العنان اور آمر محفوظ ہیں۔ یہ ہیں وہ وجوہات، جن کو محسوس کرتے ہوئے اس جدوجہد میں شامل ہونا ضروری ہے تاکہ تعلیم کو بنیادی انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کیا جا سکے۔
اسی سلسلے اگرذکر کیا جائے پاکستا ن کا توپنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ پنجاب میں رہنے والے لوگ پنجابی کہلاتے ہیں۔ پنجاب جنوب کی طرف سندھ، مغرب کی طرف سرحد اور بلوچستان،شمال کی طرف کشمیر اور اسلام آباد اور مشرق کی طرف ہندوستانی پنجاب اور راجستھان سے ملتا ہے۔ پنجاب میں بولی جانے والی زبان بھی پنجابی کہلاتی ہے۔ پنجابی کے علاوہ وہاں اردو اور سرائیکی بھی بولی جاتی ہے۔ پنجاب کا دارالحکومت لاہور ہے۔ پنجاب فارسی زبان کے دو لفظوں پنج بمعنی پانچ اور آب بمعنی پانی سے مل کر بنا ہے۔پاکستان میں تعلیم کی نگرانی وفاقی حکومت کی وزارت تعلیم اور صوبائی حکومتیں کرتی ہیں۔ وفاقی حکومت زیادہ تر تحقیق اور ترقی نصاب، تصدیق اور سرمایہ کاری میں مدد کرتی ہے۔ آئین پاکستان کی شق 25ـA کے مطابق ریاست 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی معیاری تعلیم فراہم کی پابند ہے۔پاکستانی بچوں میں سے صرف 80 فیصد ابتدائی تعلیم مکمل کرتے ہیں۔ حکومت پنجاب صرف تقریناً محکمہ تعلیم پنجاب سالانہ اربوں روپے خرچ کررہی ہے میڈیارپورٹس کے مطابق صرف سیکرٹری سکول کا عملے سمیت ماہانہ خرچہ ایک کروڑکے قریب ہے۔
UNESCO
یونیسکو کے عالمی تعلیم ڈائجسٹ 2009 کے مطابق 6.3 فیصد پاکستانی 2007ء میں (مرد 8.9 فیصد اور خواتیں 3.5 فیصد) جامعات سے فارغ التحصیل تھے۔ پاکستان ان اعداد و شمار کو 2015ء میں 10 فیصد کرنے اور 2020ء تک 15 فیصد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ماسٹر ڈگری پروگراموں میں زیادہ تر دو سال کی تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد ماسٹرز ان فلاسفی (ایم فل) کیا جا سکتا ہے۔ ایم فل کی تکمیل پر ڈاکٹر آف فلاسفی (پی ایچ ڈی) کی ڈگری کا حصول کیا جا سکتا ہے۔کوالٹی سٹینڈرڈ ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ 2010ء کے مطابق دنیا کی چوٹی کی 200 طرزیات جامعات میں دو پاکستانی جامعات بھی شامل ہیں۔گیارہ دیگر پاکستانی جامعات کے سمیت جامعہ ہندسیات و طرزیات، لاہور، خلائی ٹیکنالوجی کا انسٹی ٹیوٹ، جامعہ قائداعظم، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، جامعہ کراچی کا شمار یونیورسٹیوں کی عالمی رینکنگ کے مطابق بہتریں 1000 عالمی جامعات میں کیا جاتا ہے۔
اس کے باوجودپنجاب میں پرائمری سکول سٹسم کے ذمہ دار سیکرٹری سکول عبدالجبارشاہین کا 1983ء سے 2015تک کا سرکاری سفر کچھ یو ںرہا ہے کہ ایگرکلچرل ڈویلپمنٹ بینک آف پاکستان 1983-84 ،فاریسٹ وائلڈلائف فشرز اینڈ ٹورزم ڈیپارٹمنٹ گورنمنٹ آف پنجاب 1986-92 ،ڈپٹی سیکرٹری ٹو گورنر’ گورنر سیکرٹریٹ گورنمنٹ آف پنجاب لاہور 1994-99 ،ایڈیشنل ڈائریکٹر اینٹی کرپشن اسیٹبلشمنٹ گورنمنٹ آف پنجاب ‘ لوکل گورنمنٹ اینڈ رورل ڈویلپمنٹ لاہور 1-7-2004 تا 11-10-2005،ایڈیشنل سیکرٹری (ایڈمن) گورنمنٹ آف پنجاب ایس اینڈ جی اے ڈی 18007-2007 تا 24-4-2008 ،ڈسٹرکٹ کوارڈینیشن آفیسر قصور 24-4-2008تا 30-11-2009 ،ڈائریکٹر جنرل لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایڈیشنل چارج) جنوری 2011 تا 26-3-2012 ،ڈائریکٹر جنرل پارک اینڈ ہارٹیکلچرل اتھارٹی لاہور 09-1-2000 تا 26-3-2012 ،ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی اسلام آباد 08-3-213 تا 07-06-213 ،ڈائریکٹر جنرل پارک اینڈ ہارٹیکلچرل اتھارٹی لاہور 09-1-2000 تا 26-3-2012 ،کمشنر گوجرانوالہ ڈویژن 26-3-12 تا 08-4-2013 ،سیکرٹری سکول ایجوکیشن گورنمنٹ آف پنجاب 9-6-2013 سے کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔جن کا دامن کرپشن سے پاک صاف ہے،اس بات کا اندازاس رپورٹ سے لگایا جاسکتاہے کہ عرصہ درازسے Pstسے Est سے SStگریڈ پرموشن نہیں ہو سکی اساتذہ کو مراتCM Pakage))سے بھی تاحال محروم رکھا ہوا ہے سال 2012 کی بھرتی جو کہ ایجوکیٹرکے نام کی گئی تھی ان کے ریگولر ہونے کے احکامات2013میں جاری ہونے تھے وہ ابھی تک جاری نہیں ہوسکے کچھ کلریکل سٹاف کا کنٹریکٹ ختم ہوا رہا ہے مگروہ بھی تاحال پریشان ہیں کیونکہ ان کو بھی ریگولر کرنے کے احکامات محکمہ کے پاس موجو ہیں۔ حالیہ پانچویں اور آٹھویں کے امتحانات میں PECکی نااہلی اور بدانتظامی ،نئے سوالیہ پرچوں معصوم طلباء کو ایم اے لیول کے امتحان ،جبکہ اساتذہ اکرام کوان کے نتائج کی بنیادپر محکمانہ سزائیں دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جس ملک کے اساتذہ سٹرکو ں پرہوںگے۔بغیر کسی وجہ اچانک پرچہ ملتوی کردیئے جائیں گئے ۔وہ ملک ترقی نہیں کرسکتابلکہ موجودحکومت کیخلاف سازش کہتے ہے۔ اربوں روپے خرچہ کرنے کے باوجود وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کی سالوں کی محنت پر محکمہ تعلیم کے سیکرٹری سکول سمیت چند بااثر افسر پانی پھیررہے ہیں۔اگرمسلم لیگ ن کی قیادت نے اساتذہ کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا تودم دم مست قلندرتوہوگا۔اور یہی افسر پاکستان مسلم لیگ ن کیخلاف احتجاج میں شامل ہوںگے۔جس طرح آج ڈاکٹرطاہرالقادری،عمران خان اور چوہدری سرور سرفہرست ہیں۔