پاکستان میں شعبہ صحت کا شمار ایسے شعبوں میں ہوتا ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں، دنیا کے 188 ممالک کی فہرست میں صحت کے حوالے سے 149 ویں نمبر پر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں شہری علاج معالجے کی معیاری سہولیات سے محروم ہیں۔ کسی بھی ملک میں صحت کی سہولت، بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک تصور کی جاتی ہے، اور ریاست کی زمہ داری ہوتی ہے کہ وہ شہریوں کو علاج معالجے کی سستی اور معیاری سہولیات فراہم کرے ۔ دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں حکومتیں اپنے عوام کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کیلئے بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ مختص کرتی ہیں۔
جبکہ ہمارے ملک میں جن بڑ ے شہروں مثلاً لاہور ، اسلام آباد ، کراچی، ملتان میں اچھے سرکاری ہسپتال موجود ہیں وہ پورے ملک کی آبادی کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے تو کیا بلکہ ان شہروں میں رہائش پذیر شہریوں کو بھی معیاری علاج فراہم کرنے کی استعداد نہیں رکھتے۔ یہاں ادویات ہیں اور نہ مطلوبہ تعداد میں ڈاکٹرز، جو ہیں وہ بھی اپنا کام احسن طریقے سے انجام دینے سے قاصر ہیں۔ معمولی علاج اور ٹیسٹ کے لئے تاریخوں پر تاریخیں دی جاتی ہیں، سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز مریضوں کو پرائیویٹ لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کا مشورہ دیتے ہیں ، نتیجتاً انسانیت ہسپتالوں کی راہ داریوں میں سسکتی رہتی ہے۔شعبہ صحت کی سنگین صورتحال پر ہر دور حکومت میں حکمران اس شعبہ کی بدحالی کا رونا روتے ہوئے اس کی بحالی کے لئے انقلابی اقدامات کے دعوے کرتے نظر آئے، لیکن حقائق ہمیشہ اس کے برعکس رہے۔ موجودہ حکمران بھی شعبہ صحت کی بحالی میں کس قدر سنجیدہ ہیںاس کا اندازہ ہیلتھ بجٹ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
جبکہ سرکاری ہسپتالوں سے بھاری تنخواہیں اور مراعات لینے کے باوجود ہر اچھے ڈاکٹر کا ایک پرائیویٹ کلینک بھی لازمی ہو تا ہے، سرکاری ہسپتال میں مریض کو کہہ دیا جاتا ہے کہ تمہارے مرض پر خصوصی توجہ اور تشخیص کی ضرورت ہے جو کہ شام کو پرائیویٹ کلینک پرحاصل کی جاسکتی ہے ، جہاں مجبور مریض سے بھاری فیس لینے کیلئے عملہ تیار ہوتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ہڈی پسلی ٹوٹے مریض کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں دیتا ، مہلک بیماریوں شوگر، ہیپاٹائٹس ، ٹی بی وغیرہ کو تو بالکل یتیم شعبہ جات تصور کیا جاتا ہے۔جبکہ دور افتادہ پسماندہ علاقوں اور دیہات وغیرہ میں تو لوگ علاج کی جدید سہولیات سے یکسر ہی محروم اور نیم حکیم قسم کے معالجوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹرز کے نسخے اس انداز میں تحریر کئے جاتے جو پڑھے ہی نہیں جاسکتے، بیشتر نسخوں پر مرض کی تشخیص نہیں لکھی جاتی۔ سوال یہ ہے کہ اگر ڈاکڑز کا تحریر کردہ نسخہ ہی جدید طبی اصولوں کے معیار پر پورا نہ اترتا ہو تو اس کو استعمال کرنے والے مریض کی صحت کی ضمانت کیسے دی جاسکتی ہے۔
یقینا ان سنگین کوتاہیوں کے جاری وساری رہنے میں کسی ایک شعبہ کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا ، بلکہ سب سے بڑھ کر یہ زمہ داری ان سرکاری اداروں کی ہے جن کے فرائض منصبی میں شامل ہے کہ وہ شہریوں کو صحت کی معیاری سہولیات فراہم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے ۔ اس کے علاوہ پاکستان میں جعلی ادویات کا کاروبار بھی زور وشور سے جاری ہے، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں آئے روز ایسی خبریں نمایاں انداز میں شائع ہوتی رہتی ہیں، مگر تاحال شہریوں کی زندگی سے کھیلنے والے کسی گروہ کو اس طرح نشان عبرت نہیں بنایا جاسکا جو دوسروں کے لیے مثال بن سکے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں پائی جانے والی فضائی آلودگی، ناقص خوراک ، زہریلے سپرے والی سبزیاں ،برائلر گوشت اورخراب پانی کی وجہ سے مہلک بیماریوں کا مریض ہر گھر میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان کی ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ آبادی شوگر یا ذیابیطس جیسے مہلک مرض کا شکار ہے، شوگر جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ موت دیتی ہے یا موت جیسی زندگی۔ پاکستان جیسے کم سہولیات والے ملک میں یہ فقرہ کسی حد ت تک درست معلوم ہوتا ہے کہ جب کسی سفید پوش شخص کو علم ہوتا ہے کہ اس کو شوگر یا ہیپاٹائٹس بی سی وغیرہ کا مہنگا مرض لاحق ہو گیا ہے تونہ صرف وہ بلکہ اس کے رشتہ دار ، ماں باپ ، بیوی بچے جیتے جی ہی مر جاتے ہیں۔
مملکت خداداد پاکستان میں شعبہ صحت طویل عرصے سے نظر انداز کیا جارہا ہے، اور یہ رجحان اس کے باوجود جاری وساری ہے کہ مہذب دنیا میں اس شعبہ کو کلیدی اہمیت دی جاتی ہے۔ہماری بدقسمتی ہے کہ حزب اقتدار کے علاوہ حزب اختلاف کو بھی پروا نہیں کہ وہ شہریوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات کا تدارک کرنے کے لیے عملی طور پر موثر کردار ادا کرے۔ جبکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 38کے الفاظ کے مطابق ”ریاست کا بنیادی فرض ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کو بلاامتیاز مذہب، جنس ،ذات ، عقیدہ اور نسل، زندگی کی بنیادی ضرورتوں بشمول صحت اور علاج معالجہ کی سہولتوں کو یقینی بنائے”اسکے علاوہ حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کے انسانی صحت سے متعلق ملینیم چارٹر ( UN Millenium Declaration) پردستخط کئے ہیں جسکے تحت ہر مہذب ریاست کا فرض ہے کہ وہ عوام کو صحت عامہ کی بہتر سہولتوں سے مستفید کرے، شہریوں کو صاف ستھرا ماحول، صاف پانی اور ملاوٹ سے پاک خوراک فراہم کرنے کے علاوہ غربت کے خاتمے کا بندوبست کرئے تا کہ شہری کم سے کم بیمار ہوں، کیونکہ صحت مند افراد ہی قوم کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
بلاشبہ ہمارے ملک میں ہسپتال ، ڈاکٹرز اور صحت کے لئے کم بجٹ کا سامنا ہے لیکن ان سب سے زیادہ ہمیں شعبہ صحت میں شفافیت کی ضرورت ہے۔ بجٹ کم ہے لیکن اگر اس کا غلط استعمال روک دیا جائے تو کافی حد تک ریلیف مل سکتا ہے۔علاج گاہیں کم ہیں لیکن پہلے سے موجود ہسپتالوں میں بہتر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنا کر بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل و دیگر سٹاف کم ہے لیکن موجودہ افرادی قوت کی جدید تقاضوں کے مطابق ٹریننگ اور مراعات میں اضافہ سے بڑی حد تک مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت شعبہ صحت کے بجٹ میں مناسب اضافہ کرتے ہوئے شہریوں کو صحت کی معیاری سہولیات فراہم کرنے کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے، اور سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
ای میل : ranaaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر: 03009230033