اسلام آباد (جیوڈیسک) منگل کے روز پاکستان بار کونسل (پی بی سی) نے سپریم کورٹ کے سامنے کافی تاخیر سے ایک پٹیشن سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی، جس میں اکتیس جولائی 2009ء کے فیصلے کا جائزہ لینے کی استدعاکی گئی تھی، جس کے تحت اعلٰی عدالت کے 100 ججوں کو معزول کردیا گیا تھا۔
اس طرح کی درخواست پیش کرنے کی یہ چوتھی کوشش ہے۔ پچھلی مرتبہ ریٹائیرڈ جنرل پرویز مشرف کی جانب سے ایک درخواست دائر کی گئی تھی، جسے اس سال تیس جون کو سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں قائم چودہ رکنی بینچ نے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا،کہ یہ غیر متعلقہ کارروائی ہے اور عدالت وقت ضایع کرنے کے مترادف ہے۔
بعد میں ایک تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ نے واضح کیا تھا کہ اکتیس جولائی کے فیصلے سے تبدیلی کا ایک مضبوط احساس پیدا ہوا تھا، جو آئین اور قانون کی حکمرانی اور تاریخ میں کی گئی غلطیوں کی درستگی سے متعلق تھی۔
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایل ایچ سی بی اے) کی جانب سے بھی اسی طرح کی ایک درخواست دائر کی گئی تھی، جسے سپریم کورٹ کے آفس سے واپس کردیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف ایک اپیل تاحال زیرِ التواء ہے۔
پچیس جنوری 2010ء کو اعلٰی عدالت کے متاثرہ ججوں کی جانب سے پیش کی درخواست کا جائزہ لینے کے لیے سماعت کی گئی، جنہیں اکتیس جوالائی کے فیصلے کے نتیجے میں توہین کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ اس فیصلے کو جمہوری اصولوں کے لیے ایک فتح اور آمریت کے لیے شدید مذمت تصور کیا جاتا ہے۔
اب پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین ابرار حسن نے نظرثانی کی درخواست جمع کرائی ہے، جس میں دلیل دی گئی ہے کہ اعلٰی عدلیہ کی جانب سے ججوں کی برطرفی کے معاملے میں آئین پر غور نہیں کیا گیا جو انصاف کی ناکامی تھی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’’ادارے کے وسیع تر مفاد میں جس کے بار اور بینچ ایک ہی سواری کے پہیّے ہیں۔ درخواست گزار اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ سے رجوع کررہا ہے۔ جیسا کہ اس کی عظیم عوامی اہمیت اور اس تنظیم (پی بی سی ) کے اراکین کے بنیادی حقوق کا سوال ہے۔‘‘
اس درخواست میں دلیل دی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کو واضح الفاظ میں یہ بیان کردینا چاہیٔے کہ اعلٰی عدلیہ کا کوئی بھی جج جسے ایک مرتبہ جج مقرر کردیا جائے، آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت دیے گئے طریقہ کار کے سوا کسی طرح برطرف نہیں کیا جاسکتا۔ جیسا کہ 1996ء میں الجہاد ٹرسٹ کیس میں اور 2000ء میں ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ نے روشنی ڈالی تھی۔
درخواست میں زور دیا گیا ہے کہ ان حالات اور وجوہات کا تعین کرنا نہایت ضروری ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے ججز استعفے دینے اور قبل از وقت ریٹائیرمنٹ حاصل کرنے پر مجبور ہوئے۔ مزید یہ کہ اس ادارے کے وقار کی خاطر عدالت کے سامنے ان ججز نے یہ معاملہ نہیں اُٹھایا تھا۔