تحریر : گلناز محمود کہتے ہیں جہاں چاہ، وہاں راہ۔ اور اس کہاوت کو سچ کر دکھایا ہے ایک باہمت نوجوان اختر وقار تابش نے۔ اس نوجوان کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ ایک شعر یاد آتا ہے۔ ’’ارادے جن کے پختہ ہوں، نظر جن کی خدا پر ہو تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے‘‘۔ دوچیزیں ایسی ہیں جن کو دنیا کی کوئی بھی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ ایک ہے انسان کی سوچ اور دوسری انسان کا عزم و حوصلہ ،ان کے سامنے ہمالیہ کی بلندیاں اور کائنات کی وسعتیں کم ہیں۔ انہی دو کائناتی حقائق کی بنیاد پر انسان نے ہوائوں اور خلائوں کو مسخر کیا اور مریخ تک جا پہنچا۔
زندگی کے ہر میدان میں کسی کو شکست تب ہوتی ہے جب وہ شکست تسلیم کر لیتا ہے۔ جو محاذ پر ڈٹا رہے، سینہ سپر رہے ،فتح اسی کا مقدر بنتی ہے۔ بچپن سے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ ہمت نہ ہارو، لڑتے رہو، ہمتِ مرداں مددِ خدا ، اپنی کسی مجبوری یا خامی کو اپنے رستے کی رکاوٹ نہ بننے دو ، محرومیوں کو ناکامیوں میں تبدیل نہ ہو نے دو۔ لیکن اختر وقار تابش کو دیکھ کر ان کتابی باتوں کا عملی مظاہرہ نظر آتا ہے۔
اختر وقار تابش دیکھنے میں دونوں ہاتھوں سے معذور لگتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کو ہمہ جہت صلاحیتوں اور فولادی حوصلوں سے نوازا ہے۔ اس نے اپنی کمزوری کو اپنی طاقت بنایا اور اپنے رستے کی ہر رکاوٹ کو پاش پاش کیا۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ آنکھوں والے وہ چیز نہیں دیکھ سکھتے جو بصارت سے محروم لوگ دیکھ لیتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے ہاتھ پائوں رکھنے والے وہ کام نہیں کر رہے جو یہ نوجوان اختر وقار تابش کر رہا ہے۔
Akhtar Waqar Tabish Meeting
اختر وقار تابش بیک وقت ایک فلاحی تنظیم کے بانی اور سی ای او ہیں، نوجوانوں کے لیڈر ہیں، فصیح و بلیغ مبلغ اور ٹرینر ہیں۔ انہوں نے اس عمر میں خدمتِ خلق کا بیڑہ اٹھایا ہے کہ جس عمر میں ہمارے نوجوان اپنی توانائیاں فضول مشاغل اور عیش و عشرت میں ضائع کر دیتے ہیں۔ اختر وقار تابش سی ڈی آر ایس یوتھ کے پلیٹ فارم سے پرائمری اور سیکنڈری سطح پر طلبائ و طالبات کو شعور اور اعتماد دینے کے مختلف پروگرامز کا اہتمام کر رہے ہیں۔ یہ ایسا منفرد کام ہے جسے پاکستان میں شاید کوئی اور ادارہ یا فرد نہیں کر رہا۔
قوم کے نونہالوں کی ذہن سازی، انہیں خود اعتمادی اور کامیابی کے گر سکھانے کے لئے سی ڈی آر ایس مختلف شعبہ جات سے پیشہ ور اور ماہرِ تعلیم افراد کے ذریعے سکولوں میں چار چار ہفتوں کے تربیتی پروگراموں کا انعقاد کر رہی ہے جس میں شخصیت سازی، صحت مند رہنے کے حوالے سے آگاہی، بچوں کے لکھنے اور پڑھنے میں بہتری لانا ، اور ایکسپرٹ ماہرینِ تعلیم کے ذریعہ اساتذہ کی تربیت کرنا بھی شامل ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس طرح کے پروگرامز سے چھوٹے بچوں میں خوداعتمادی آتی ہے، فیصلہ کرنے کی طاقت ملتی ہے۔
اپنے جذبات و احساسات کو سمجھنے کی اہلیت بڑھتی ہے اور اپنے مستقل کی منصوبہ بندی کرنے اور ملک و ملت کے لئے مفید شہری بننے کی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اختر وقار تابش کی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رکھے۔ یہ نوجوان قوم کے ان تمام نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہے جو کسی نہ کسی عذر یا مجبوری کے بہانے سے قومی ترقی کے دھارے میں شامل ہونے سے کتراتے ہیں ۔ آئیں ہم مل کر ان کے مشن کو آگے بڑھائیں، ان کا ساتھ دیں، ان کو خراجِ تحسین پیش کریں۔ ہمارے ملک کواختر وقار تابش جیسے باہمت ناجوانوں کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔