تحریر : ریاض جاذب ڈیرہ غازیخان سمیت پنجاب بھر میں آپریشن ردالفساد جاری ہے۔ پاکستان رینجر اور CTD فورسز کی جانب سے اس ضلع کے چار مقامات پر کاروائی کی گئی جس میںایک ہفتہ دوران (9 اپریل تا14 اپریل)18 دہشت گرد ہلاک ہوئے اور فائرنگ کے تبادلہ میں اب تک چار ، رینجرز جوان بھی شہید ہوئے ۔گزشتہ ہفتہ بڑی کاروائی ڈیرہ غازیخان کی تحصیل کوٹ چھٹہ کے علاقہ چوٹی زرین سے آٹھ کلومیٹر فاصلہ پر بستی” دادوآنی ” میں کی گئی جس میں رینجراور CTD نے حصہ لیا۔ base on Intelligence اس آپریشن میں دہشت گردوں کے ٹھکانے کو ٹارگٹ کیا گیا چاروں طرف سے سیکورٹی فورسز کے گھیرے میں آجانے کے بعد دہشت گردوں کے لیے فرار کی کوئی گنجائش باقی نہ تھی۔
فائرنگ کے تبادلہ میں 10 دہشت گرد ہلاک ہوگئے جن میں ان کا سرغنہ اصغر عرف استاد الیاس گورچانی اور اس کا نائب نعیم عرف وقاص شامل تھے ۔ جمعہ کے روز ہونے والے اس آپریشن میں 3 رینجرکے جوان شہید اور تین زخمی ہوگئے ۔ اس سے قبل 9 اپریل کوضلع کے قبائلی علاقہ میں کئے گئے آپریشن میں بھی ایک رینجر اہلکارشہید ہو گیا تھا۔
ڈیرہ غازیخان میں دہشت گردوں کے لیے” محفوظ پناہ گاہیں اور مضبوط ٹھکانوں ”کی موجودگی کی اطلاعات بہت پہلے سے تھیں مگر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ پس پردہ اس کی کیاوجوہات ہیں اس راز سے بھی آج تک پردہ نہیں اٹھایا جاسکا ۔پنجاب حکومت کے وزیروں کے بیانات آج بھی ریکارڈ پر ہیں کہ یہاں ایسی کوئی صورت حال نہیں کہ کوئی بڑا آپریشن کیا جائے ”کاروائی کا جواز”مانگا جاتا رہا ۔اب جب بڑے پیمانے پر دہشت گردوں کی ہلاکتیں ہورہی ہیں تو یہ ثابت ہوگیاکہ یہاں دہشت گردوں کی” محفوظ پناہ گاہیں اور مضبوط ٹھکانے” ہیں جنہیں تباہ کیا جا رہا ہے۔
ڈیرہ غازیخان پنجاب میں دہشت گردوں کے لیے سب سے آسان” انٹری پوائنٹ ”ہے۔ دیگر تین صوبوں کی سرحدوں سے متصل یہ ایک ایسا ضلع ہے جوکہ عمودی، پہاڑی اور نیم پہاڑی علاقہ(پٹی) پرمبنی ہے۔جغرافیہ لحاظ سے یہ ضلع دہشت گردوں کی رسائی کے حوالے کمزور ضلع ہے N 55 سے خیبر پختون خواہ، اور 70 N سے بلوچستان سے عسکریت پسند، دہشت گرد روائتی اور غیر روائتی راستوں سے داخل ہوتے ہیں یہاں ان کے سہولت کاروں کا مکمل نیٹ ورک موجود ہوتا ہے ۔اس بنا حکومت نے ہمیشہ یہی کہا کہ یہاں کوئی” نوگو ایریا ”یا ٹھکانا نہیں ہیں بس روٹ یعنی گزرگاہ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں ‘ محفوظ پناہ گاہیں اور مضبوط ٹھکانے” ہیں ۔جنہیں تباہ کرنا ضروری ہے۔
نئے تعینات آئی جی پنجاب کیپٹن (ر)عثمان خٹک ڈیرہ غازیخان میں بطور ڈی پی او کام کرچکے ہیں اور وہ خود بھی اسی علاقہ جہاں 14 اپریل کے کئے گئے آپریشن جس میں 10 دہشت گرد ہلاک اور تین رینجرجوانوں کی شہادت ہوئی میں ایک ایسی ہی کاروائی کی قیادت کرچکے ہیں ۔ جس میں متعدد دہشت گرد ہلاک اور کئی گرفتار بھی ہوئے تھے وہ خود بھی جوابی فائرنگ سے زخمی ہوئے تھے انہیں کندھے پر گولی لگی ۔ وہ بڑی بہادری کے ساتھ اگلے مورچے پر اپنے جوانوں کے ساتھ ساتھ شریک تھے۔
انہیں معلوم ہے کہ ڈیرہ غازیخان کی اس بارے کیا صورت حال ہے۔ جنوبی پنجاب میں دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور ان کی محفوظ پناہ گاہوں اور مضبوط ٹھکانوںکو تباہ کرنے کے لیے آپریشن کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے ۔ نئے تعینات آئی جی پنجاب کے علم میں یہ بھی آچکا ہوگا کہ دہشت گردوں کے سہولت کار خود ان کی اپنی فورس پولیس میں بھی موجود ہیں گزشتہ ہفتہ ڈی آئی جی ڈیرہ غازیخان رحمت اللہ خان نیازی اس بات کی تصدیق کرچکے اور بقول ان کے کہ 9پولیس والوں کو سہولت کار ہونے پر نوکری سے برخاست کیا جا چکا ہے۔