ڈیرہ اسماعیل خان(جیوڈیسک) شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے بعد لاکھوں لوگوں نے مختلف علاقوں میں نقل مکانی کی ۔ انھیں میں سے کچھ نے ڈیرہ اسماعیل خان کا بھی رخ کیا۔
جہاں کے میزبانوں نے ان متاثرین کی دادرسی کے لئے اپنے دروازے کھول دیئے۔شمالی وزیرستان سے بے گھر ہونے والے لاکھوں قبائلیوں کی نقل مکانی دراصل قربانی ہے۔
کروڑ وں پاکستانیوں کے لیے تاکہ وطن عزیز سے دہشتگردی کا افریت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہو جائے ۔ متاثرین کے لیے کئی شہروں میں لوگوں نے اپنی رہائش گاہوں کے در وازے ان کے لیے کھول دئیے۔
اور ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار ان میزبانوں کی اپنی معاشی حالت اچھی نہ ہونے کے باوجود دو وقت کی روکھی سوکھی ہی سہی ان کے بچوں کا پیٹ بھرا جا رہا ہے ۔پردہ دار خواتین کے لیے ان گھروں میں پھٹی چادروں، پرانے کپڑوں اور پلاسٹک کے تھیلوں سے پردے بنائے گئے ہیں۔
برآمدوں میں بچھی چارپائیوں کی قطاروں پر گرمی ،حبس سے ہلکان، بلکتے بچوں کی آہ و بکا نے جیٹ طیاروں اور توپوں کی گھن گرج اور نقل مکانی کے دوران پیدل مصافت کی تکلیفات بھلادیں ہیں۔وطن عزیز میں لگ بھگ ایک دہائی سے جاری دہشت گردی میں ان لوگوں کا کتنا قصور تھا۔
بھی یا نہیں مگر لاکھوں معصوموں ،باپردہ خواتین اور بوڑھے ماں باپ نے وطن عزیز کی بقاء کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر قربانی دے دی ہے۔ ان کی مشکلات کا مداوا کیسے ہو پائے گا۔
شمالی وزیرستان کے لاکھوں متاثرین نے جو تکلیف نقل مکانی کے دوران گزارنی تھی وہ گزار لی اب دوسرے مرحلے میں اب ان کی بحالی کا عمل شروع ہونے والا ہے۔ خدا کرے آپریشن کے بعد ان کو آپریشن کے مفید اثرات سے بھی ہم آشناء کر سکیں شاید ان کی مشکلات کا مداوا اس طرح سے ممکن ہو سکے گا۔