عراق اور شام میں مسیحیوں کی نسل کشی

Christians

Christians

١٨،اگست ٢٠١٤،ایک پریس کانفرس میں پاکستان کرسچئین پارٹی کے چئیر مین جوزف فرانسس نے کہا ہے کہ عراق کے شہر موصل میں نہتے مسیحیوں پر انتہا پسند تنظیم کے حملے جاری ہے ہیں انہوں نے مطالبہ کیا ہے کے اقوام متحدہ وہاں اپنی امن فوج بھیج کر معصوم مسیحیوں کو تحفظ فراہم کرے ….اگست کے شمارے ہمسُخن جو عمانو ایل ظفر سابق ایم این اے کی ادرات میں لاہور لندن سے شائع ہوتا ہے میں تفصیل سے اپنے خصوصی کالم میں لکھا ہے ”عراق کے انتہا پسند جہادی گروپ دولت اسلامی عراق و شام (IIIISISIIII)نے شام کے باغیوں کے ساتھ مل کر شام کے صدر بشارت الاسدکا تختہ الٹنے کے لئے دہشت گرد کاروائیوں سے شہرت حاصل کی اور اب جون سے عراق کے صوبہ نینواہ کے شہر موصل میں اپنی تنظیم نے اپنا دارلخلافہ قائم کر کے نہ صرف مسیحیوں کے لئے عرصہ حیات تنگ کیا ہے۔

بلکہ انبیاء سابق جو مسلمانوں اور مسیحیوں کے لے قابل احترام تھے کے مزارات جلانے اور مسمار کرنا شروع کر دئے ہیں یہی اولیاء کرام کے مزارات،اور اہل تشیع کی امام بارگاہوں کو تباہ کر رہے ہیں ….خصوصاً مسیحیوں کو انتباہ کرتے ہوئے ایک مراسلہ کے زریعہ کہا گیا ہے کہ تمہارے لئے تین راستے ہیں ،اول یہ کہ اسلام قبول کر لو .دوسرا یہ کہ جزیہ دو ،اور تیسرا یہ کہ موت کے لئے تیا ر،” اب یہ کوئی نئی بات نہیں ہمیں ٢١ ویں صدی میں عجیب لگتی ، یہ زمانہ ساتویں یا آٹھویں صدی کا نہیں یہ ٢١ ویں صدی ہے …… اگر تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو خلفاء راشدین کے عہد میں بھی ….میں نے تاریخ کی ورق گردانی کی ظہور اسلام سے پہلے عرب میں کفار کے علاوہ مسیحیوں کے بہت مشہور قبائل تھے جن کے ساتھ حضورۖنے میثاق کے مدینہ طے کیا ……،عرب مورخین کے مطابق ان قبائل میں قضاء ،سبلج،اور غسان مسیحی تھے،حیرہ اور یمن کے ملوک بھی مسیحی تھے۔

ان ملوک میں طے،بہرا،لخم،اور ایاد مسیحی تھے ،…پھر یہ بھی تاریخ کے اوراق میں ہے کہ ان قبائل میں سب سے طاقتور قبیلہ غسان تھا بہرائ،وائل،بکر،لخم،خدام، عاملہ،وغیرہ قبائل ان کے ماتحت تھے ،ان کے علاوہ دومتہ ،الجندل،ایلہ،جریا،ارح۔تبالہ،جوش وغیرہ کے رئیس یہودی اور مسیحی تھے ……یہ بھی تاریخ میں رقم ہے کہ آپ حضورۖ کی وفات کے بعد اکثر اہل عرب مرتد ہوگئے ،حضرت ابو بکر خلیفہ اول نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ جو کلمہ پڑھے،نماز قائم کرے ،زکوة دے اگر کوئی ایک کا بھی انکار کرے تو گویا سب کا منکر ہے۔

تو ان سے جہاد کرنا ،اس طرح بنی اسد،اوربنی غلفان اور دیگر بہت سے مرتد قبائل قتل کئے گئے اور باقی اسلام پر قائم ہوگئے یوں محبت اور رواداری قائم ہوئی … چن چن کر مسیحی قتل کئے گئے تاہم اِس دو سالہ عہد جو بچ گئے انہیں حضرت عمر کے عہد میں ،اُن سے یہ رعائت کی گئی جیسے بنو غسّان کا قبیلہ کنعان کے مشرق اور شام کی اطراف حکمران تھا عہد جاہلیت میں اس مسیحی قبیلہ کے عمراء بڑے شجاع شمار کئے جاتے ،حضرت عمر نے اِن کے سردار جَبلَہ کو کہا تیرے لئے تین راہ کھلے ہیں ،اسلام قبول کر لو ،یا جزیہ دو ،یا جہاں جانا چاہو نکل جاؤاُس نے ہجرت کی را ہ اختیا کر لی ٣٠ ہزار مردون ،عورتوں اور بچوں سمیت ایشاء کوچک کو چلے گئے …بنو تغلب نے اسلام اختیا رکرنے سے انکار کیا تو حضرت عمر نے فرمایا جزیہ دو انہوں کہا جزیہ ذلت کی نشانی ہے۔

مسلمانو ں سے دو گنا صدقہ دیں گے ، توبھی حضرت عمر نے جزیہ کے ساتھ یہ شرط بھی لگائی کہ وہ اپنے بچوں کو پانی سے غوطہ نہیں دیں گے اور نہ ہی انہیں مسیحی بنائیں گے …. جہاد مسلمانوں پر فرض ہو گیا یہ تاریخ اس کالم میں نہیں سما سکتی مختصر یہ کہ ساتویں صدی کے اختتام تک پورے عرب و مشرق وسطیٰ میں ایک بھی مسیحی نہ رہا جن کے لئے یہ آپشن بھی رکھی گئی کے وہ ملک سے نکل جائیں کہ حضورۖ نے وفات سے قبل فرمایا تھا کہ عرب میں سوائے اسلام کے کوئی دوسرا مذہب نہ رہے ،سو خلفاء راشدیں کے عہد ہی میں عرب دیگر مذاہب سے پاک ہو چکا تھا اور آج بھی عرب ممالک میں کہیں بھی کوئی مسیحی اور یہودی نہیں آثار قدیمہ کے نشانات تک مٹا دئے گئے۔

قبل اسلام صنعا میں ایک بہت بڑے کلیسا کا زکر تاریخ میں موجود تھا مگر اس کے اثار بھی نہیں، ایسا کچھ نہیں ملتا جس یہ پتہ چل سکے کہ کبھی یہاں بھی مسیحی تھے، رومنوں کے عہد میںمسیحت ظلم و بربریت کا شکا ر رہی، ساسانی عہد میں بھی مسیحیوں کو جبر کا نشانہ بنایا گیا پھر اسلام نے بھی ان کے ساتھ وہی سلوک کیا ، کہا جاتا ہے اسلام تلوار سے پھیلا اور یہ قتل مرتد کا حکم یہ ثابت کرتا ہے، اسلام نے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا …تو دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے ااسلام تلور سے نہیں پھیلا ، تو اِن دونوں باتوں میں کس پر ایمان لائیں اگر اسلام امن و سکونکا پیغام تھا اور ہے۔

Islam

Islam

جیسا کہا جاتا ہے کہ دین کے معاملہ میں وہ ” جبر و اکراہ ”کو پسند نہیں کرتا تو پھر قتل مرتد کے کیا معنی ؟ اگر ایک شخص اسلام سے منحرف ہو کر دوسرا مذہب اختیار کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اس کی طرف سے مطمئن نہیں …اور اگر اسے اس جرم میں قتل کا سزا وار قرار دیتے ہیں تو ،کیا اِس کا مطلب یہ نہیں کہ اُسے جبراً اسلام پر قائم رکھا جائے …. ساتویں صدی جب اسلام کی فتوحات کا دور تھا اس دور میں مسیحت طلم و بر بریت کا شکار رہی توبھی مسیحت بڑی سخت جان واقع ہوئی کہ آج بھی دنیا کی اقوام اور مذاہب میں سر فہرست ہے اور تعداد میں زیادہ ہے ….، ابلیس نے ہر عہد میں انہیں ختم کرنے میں پوری کوشش کی لیکن مسیحیت بڑی سخت جان واقع ہوئی کہ آج تک بڑھتی گئی ہے ٢١ ویں صدی میںڈھائی ارب انسانوں پر مشتمل اور دنیا میں کل کا آبادی کا ٣٤ فی صد ہے،مسیحت کبھی کسی دیگر مذاہب سے خوف دہ نہیں جبکہ اسلام نے عرب میں اسکا بیج مکا دیا اور آج بھی مکہ معظمےٰ میں کسی غیر مسلم خصوصا مسیحیوں کو داخلے کی اجاذت نہیں ،یہ خوف کی وجہ ہے۔

دوسری طرف کیتھولک مسیحی دنیا کے لئے مکہ جیسی حثیت رکھنے والا ویٹیکن جہاں کیتولک مسیحیوں کا روحانی پیشوا پاپائے روم رہتے ہیں وہان ٢٠٠١ میں مسجد بنی اور جماعت اسلامی کے امیر مرحوم قاضی حسین احمد نے افتتاح کیااور لیکچر دئے ، آج تک کسی مسیحی کو کوئی تعرض نہیں ،وہاں بھی مسلمان ہیں ،خصوصاً پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ مغرب والے اسلام سے خائف ہیں ،نہیںاسلام سے کوئی خوف نہیں بلکہ اسلام پسندوں کی نیتوں سے اپنوں اور بیگانوں کو خوف ہے ،جبکہ مسیحت اسلام سے ہرگز خوف زدہ نہیں اسلام ضرور خوف زدہ ہے اسی لئے مرتد کی سزا قتل مقرر ہے آج تلوار ہٹا دیں پھر معلوم ہو گا ،سعودی عرب میں آج بھی مسیحیوں کو بھی نشانہ بناجاتا ہے۔

کوئی کلیسا نہیں …. کابل میں آٹھ مسیحیوںکو جن میں خواتین بھی تھیں جو اپنا ملک چھوڑ کر یہاں وہ افغانوں کی خدمت کر تے انکا جرم یہ تھاکے اُن کے پاس بائبل تھی اور وہ اپنی عبادت کرتے تھے، طالبان حکمرانوں کو یہ بھی گوارانہیں تھا انہیں گرفتار کرکے سزا دی گئی ،مسیحت اور مسیحی اسلام سے خوف زدہ ہیں یا پھر اسلام اور مسلمان مسیحت سے خوف زدہ ہیں….اب خالق خدا نے آدم کے سامنے دو راستے رکھے ایک زندگی کا اور دوسرا موت کا اور اُسے اُس کی آزاد مرضی پر چھوڑ دیا کہ جو راستہ اختیار کرنا چاہے کرے تب آدم نے اپنی مرضی سے موت کا راستہ اختیا ر کیا ،جب یسوع المسیح آئے تب کی دنیا کروڑوں میں تھی تو آپ نے دنیا کو وہی دو راستے دکھائے ایک زندگی اور دوسرا موت کا ،اب یہ انسان کی مرضی ہے کہ وہ ہمیشہ کی زندگی کی راہ اختیار کرتا ہے۔

موت کی راہ اُس پر کوئی جبر نہ تب تھا اور نہ آج بھلے ساری مخلوق موت کی راہ پر چل نکلے ….. دو ہزار سال پہلے یسوع المسیح نے یہ دعویٰ کیا ،آپ نے فرمایا راہ ،حق اور زندگی میں ہوں کوئی میرے بغیر باپ کے پاس نہیں جا سکتا آپ نے کسی ایسی جنت کا تصور نہیں دیا جہاں حوریں ہونگی ،غلمان اور کنیزیں ہونگی وہاں دودھ شہد اور شراب طہور بھی ملے گی….اہل ہنود کے یہاں بھی کہا گیا ہے کہ سورگ لوک میں اپسرائیں ہاتھوں میں پھولوں کی ور مالائیں لئے تمہارا سواگت کریں گی ،لیکن مسیحت میں ایسا کچھ نہیں کہا گیا ایسی کسی جنت کا زکر نہیں جہاں حوریں ملیں گی ،صرف یہی خبر دی کے جو آخر تک برداشت کرے گا زندگی کا تاج پائے گا۔

وہاں ہمیشہ کی زندگی کا جو نقشہ دکھایا گیا اُس میں ایسا نہیں ہمیشہ کی زندگی کا مطلب خدا کی پاک حضوری جہاں بھوک ہوگی نہ پیاس سب فرشتوں کی مانند پاک ہونگے جہاں وہ خدا کو دیکھیں گے ، یسوع المسیح سے قیامت کے متعلق ایسا ہی سوال کیا گیا کہ ایک عورت کا شوہر مر گیا تو شرع کے مطابق اس نے خاوند کے بھائی سے نکاح کیا وہ مر گیا تو ..اس طرح سات بھائی تھے وہ ساتوں کی بیوی بنی اب قیامت میں وہ کس کی بیوی ہوگی ،تو یسوع المسیح نے فرمایا دیکھو وہاں بیاہ شادی نہیں ہوگی کہ سب فرشتوں کی مانند پاک ہونگے ،مطلب یہ کہ مسیحت میں کسی ایسی جنت کا کوئی تصور نہیں خوبصورت حوریں ( عورتیں ) ملیں گی ،جہاں شرابِ طہور ملے گی اور جس کھانے کا ارادہ کریں گے وہی فوراً ملے گا ،تصور میں نظارہ کریں ایسے ماحول کا جہاں عورتیں اور شراب ملے اور تو کیا۔

اس سے متعلق قارئین خود فیصلہ کریں کہ وہ کون تھا(نوائے وقت ٢٣،اگست ٠٠٩ ) حسن بن صباح ایران کے شہر قُم میں ١٠٣٤م ء میں پیدا ہوأ،عمرخیام،نظام الملک طوسی اور حسن بن صباح ہمعصر تھے ، اُس نے مصر میں فرقہ باطنیہ قائم کیا لوگ بڑی تعداد میں اِس فرقہ میں شامل ہوئے…….. اپنی تخریبی سرگرمیوں کے باعث مصر میں کچھ عرصہ تک پسِ زنداں بھی رہے اور پھر ملک سے نکال دئے گئے تو وہ اپنے ہزاروں پیرو کاروں کے ساتھ بحر کیپسین کے قریب البزر کی پہاڑیوں میں ڈیرے ڈالے جہاں کھل کر اپنے نظریہ کی ترویج پر کام کرنا شروع کیا ،قلعہ الموت ، کو اُس نے اپنا مسکن بنایا ،وہ اپنے لوگوں میں یہی کہتا کہ جو میں کہتا ہوں وہی سچ ہے۔

باقی سب جھوٹ ،اور جو اِس عقیدے پر عمل نہیں کرتا وہ واجب القتل ہے ،اُس نے یہاں جنت بنائی جس میں چار نہریں تھیں، شہد ،دودھ، شراب اور پانی ،نوخیز ،خوبصورت دوشیزائیں گھومتی پھرتی،خوبصورت نو عمر لڑکوں کو بھی باغ میں رکھا گیا وہ اپنے پیرو کاروں کو یقین دلاتا کہ یہی وہ جنت ہے جس کا قرآن میں زکر ہے….کالم کی طوالت کا خوف سدِراہ ہے۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: ع.م بدر سرحدی