تھر (جیوڈیسک) صحرائے تھر میں غذائی قلت انتہائی اہم مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ خوراک نہ ملنے کے باعث انسان ہی نہیں جانو ر بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
تھر صوبہ سندھ کا ایسا علاقہ جہاں ساون آتا ہے تو مور ناچتے ہیں ،زندگی کے خو بصورت رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں،مگر گزشتہ چند سالوں سے یہاں کے باسی قحط کے باعث اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔ اس علاقے کا سب سے اہم مسئلہ غذائی قلت ہے جو ہر سال سیکٹروں جانیں نگل جاتا ہے۔ مٹھی، چھاچھرو، اسلام کوٹ اور نگر پار کر سمیت صحرا ئے تھر کی حدود میں سیکڑوں ایسے کم آبادی والے گائوں ہیں جہاں زندگی کی بنیادی ضروریات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اسی وجہ سے یہاں کی خواتین اور بچوں کی جسمانی ساخت انتہائی کمزور ہے اور بچے مختلف بیماریوں میں باآسانی مبتلا ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران صر ف مٹھی کے اسپتال میں تھر کے مختلف علاقوں سے چار سوسے زائد بچے غذائی قلت کی وجہ سے لائے جا چکے ہیں۔
دوسری جانب سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم کا کہنا ہے کہ تھر کی موجودہ صورتحا ل کی ذمہ دار صوبائی اور وفاقی دونوں حکومتیں ہیں۔ صحرا ئے تھر میں صوبائی حکومت کی جانب سے انسانی جان کے بچائو کے لئے اقدامات کے دعوے تو کئے گئے مگر صورتحال اس کے برعکس ہی نظر آتی ہےجبکہ سندھ حکومت کا موقف ہے بچوں کی اموات غذائی قلت سے نہیں دیگر امراض سے ہوئی ہے۔
صحرا تھر میں غذائی قلت کے باعث گزشتہ چند ماہ میں سیکٹروں بچے اسپتال لائے جا چکے ہیں۔ متاثرہ بچوں کے والدین کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ جلد از جلد غذائی قلت کو پورا کیا جائے اور ان کی جانوں کو بچایا جائے۔