صحرا کے مسافر کو تو دریا نہیں ملتا قدموں کو کسی سمت بھی رستہ نہیں ملتا اِس شہر میں اب کوئی شناسا نہیں ملتا کندھوں پہ اٹھا لیتے ہیں خود اپنے ہی لاشے جِن لوگوں کو جینے کا سہارا نہیں ملتا اس کھیت کی مٹی میں تمنائوں کا خوں ہے جس کھیت سے دہقان کو حصہ نہیں ملتا اپنے بھی نصیبوں میں وہی سنگ زنی ہے یہ بات الگ قیس سے شجرہ نہیں ملتا رہتے ہیں شب و روز غمِ ہِجر سے بوجھل جُز تیرے کوئی درد کا چارہ نہیں ملتا ناکامی و حسرت کا گِلہ کیسے کریں ہم صحرا کے مسافر کو تو دریا نہیں ملتا جِس شخص کو پانے کے لئے عمر گنوائی اُس سے بھی مقدر کا ستارا نہیں ملتا