صحرائے تھر پاکستان کے جنوب مشرقی اور بھارت کے شمال مغربی سرحد پر واقع ہے۔ اس کا رقبہ ٠٠٠،٢٠٠مربع کلو میٹر یا ٠٠٠،٧٧ مربع میل جبکہ اس کا شمار دنیا کے نویں بڑے صحرا کے طور پر کیا جاتا ہے۔صحرائے تھر بنیادی طور پر مسلمانوں ،ہندوئو ں اور سکھوں سے آباد ہے پاکستانی حصہ پر سندھی اور کوہلیوں کی سکونت ہے جبکہ دوسری طرف بھارتی ریاست راجھستان کی تقریباً٤٠فیصد آبادی صحرائے تھر میں رہتی ہے۔ریگستان میں لوگوں کا بنیادی پیشہ زراعت اور گلہ بانی ہے مگر صحرائے تھر میں انسانی ذندگی بارش کی محتاج ہے،ابر رحمت برسے تو اس بے رنگ تصویر میں کتنے ہی رنگ بکھر جاتے ہیںاور ہر سوجل تھل ہو جاتا ہے۔جانوروں کو چارہ دستیاب ہوتا ہے اور انسانوں کو خوراک بھی مل ہی جاتی ہے۔
مگر گزشتہ ٢ سال سے تھر میں بارش کا ایک بوند بھی نہیں برسا جس کی وجہ سے یہاں قحط سالی ہو گئی ہے۔بوند بوند کو ترسنے والے اب ایک وقت کی روٹی کے لئے بھی پریشان ہیں ،مٹھی بھر اناج کو چکی میں پیس کر آٹا بنانے والی عورت کے لئے گندم کے چند دانوں سے گھر کے تمام افراد کا پیٹ بھرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہو گیا ہے۔بھوک ،افلاس ، پھٹے پرانے کپڑے،گذر سفر کا عذاب اور موسم کی اذیتیں ،علاقہ مکیں کس کس چیز کے لئے غم کر یں؟مصائب اس پر بھی بس نہ ہوئے،اب تو کنوئوں میں پانی بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔پچھلے سال بھی حکومت کی جا نب سے امدادی گندم کے وعدے بہت ہوئے مگر حکومتی وعدے بھی بھلا وفا ہوئے ہیں ؟اب کی بار قحط سالی منہ پھاڑے کھڑی ہے اور بے سروسامانی کا عالم دیکھ کر کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے،مون سون کی موسم میں افلاس کی شکار تھر کی خواتین نے جب آسمان پر کالی گھٹا دیکھی تو مینا برسنے کی اﷲ سے بہت التجائیں کیں مگر بادلوں کو ذرہ برابر بھی ان پر رحم نہ آیا ،تھر کے ریگستان میں مون سون کی بارش تو نہ برسی مگر قحط سالی نے وہاں کے رہنے والوں کی ذندگی ضرور مشکل کردی۔زمین پانی اور بچے دودھ کو ترس گئے بھوک نے اپنا شکم بھرنے کے لئے انسانوں کو اپنا نوالہ بنانا شروع کر دیا۔جس دوران تھر کے معصوم بچے بھوک اور پیاس سے تڑپ کر اپنی زندگیاں کھو رہے تھے۔
Pakistan Peoples Party
اسی وقت وفاق کی پہچان کے نام سے مشہور سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پاڑٹی موئنجو داڑو میں سندھ فیسٹول کی رنگ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ایک طرف آہوں اور سسکیو ں سماں تھا تو دوسری طرف ناچ گانے اور شراب کا دور دورہ تھا،ایک طرف تھر کی عورتیں کھانے کے لئے ایک روٹی کو ترس رہیں تھیں تو دوسری طرف سینکڑوں قسم کے پکوان موجود تھے،روٹی ،کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والوں نے غربت ختم کرنے کا دعویٰ کیا تھا ،مگر یہاں غربت تو ختم ہوگئی مگر غریب کے مر جانے سے…٢٠٠ سے ذائد معصوم بچوں کی اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد حکومت سندھ کو نظر آیا کہ اصل میں ہوا کیا ہے۔اور ضلع تھرپارکر کو آفت ذدہ قرار دے دیا گیا،مگر پھر بھی امدادی کاموں کا آغاذ نہ ہو سکا۔31جنوری کو حکومت سندھ کی جانب سے ٦٠ہزار بوریاں گندم مستحقین کو پہنچانے کے بجائے محکمہ خوراک کے گودامیں میں سڑ رہی ہیں۔بھوک ،پیاس سے بچنے کے لئے لوگوں نے شہروں کی جانب نقل مکانی شروع کردی ہے قحط سالی اور غذائی قلت کا شکار معصوم بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر دم توڑ رہے ہیں۔
Thar Famine Vicitem
اگر رجسڑڈ اموات کا تخمیہ لگایا جائے تو دسمبر ٢٠١٣ میں 42 بچے، جنوری ٢٠١٤ میں 40، فروری کے مہینے میں 36 اور مارچ کے مہینے میں 50 بچے موت کی ابدی نیند سو گئے مگر کوئی پرسان حال نظر نہیں آتا۔ تھر میں قحط سالی کے بے رحم سانپ نے اپنا زہر پھیلایا ہوا ہے اور یہ سانپ رفتہ رفتہ جانوروں کو نگلنے کے بعد انسانوں تک پہنچ رہا ہے ،اپنی ذندگی کی بقا اور بھوک پیاس سے سسکتی موت سے تحفظ کے لئے تھر کے غریب اور بے بس عوام حکومت کی سنگدلی اور لاپروائیوں پر حیران ہیں اور ان کے اس بیہمانہ رویوں کے بعد ان کے لبوں پر صرف یہی ایک فریاد باقی ہے کہ :
برائے چند ساعت ابر باراں بھیج دے یا رب بہاراں بھیج دے یارب بہاراں بھیج دے یارب
اس موقع کی مناسبت سے میں آپ قارئین کی خدمت میں ایک سوال رکھنا چاہتا ہوں کہ ہم نے انتخابات میں سندھ کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا،میرا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت کا حق ادا کیا ؟؟؟ کیا ہماری مصیبتیں کم ہو سکیں؟ کیا سندھ میںخوشحالی آگئی ؟؟ حکومت کا کیا حق ہے آپ کو میں ایک عظیم مسلمان خلیفہ کے کردار سے بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت عمر فاروق مسلمان امت کے دوسرے خلیفہ ہیں ،وہ اکثر فرمایاکرتے تھے کہ مجھے ڈر ہے کہ دریا فرات کے کنارے بھوک سے اگر ایک کتا بھی مر گیا تو اﷲ مجھ سے اس کا بھی سوال کرے گا۔
حضرت عمر فاروق کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے یعنی وہ دس صحابہ کرام جن کو خود رسول اکرم ۖ نے انکی ذندگی میں ہی جنت کی بشارت دی،مگر جب اقتدار میں آئے توخوف کا عالم دیکھیں ایک کتے کے مر جانیکے خوف سے ہی خود پریشان ہوگئے۔ یہ تھے وہ کردار جو حکومت کا صحیح حق جانتے تھے اور یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے حکومت کا حق پوری طرح ادا کیا۔ آخر میں میں حکومتی حلقے سے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اﷲ کے لئے سنبھل جائیں ،اﷲ کا خوف دل میں رکھیں ،دنیا چار دن کی ہے،پلٹ کر ہمیں جانا ہی ہوگا ،دنیا میں جائز اور ناجائز طور پر جمع کی گئی پونجی ساتھ نہیں جائے گی ، اگر کچھ ساتھ جائے گا تو وہ ہیں آپ کے اور ہمارے اعمال،کل کو رب کے دربار میں جب آپ سے یہ سوال ہوگا کہ ہم نے تمہیں ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ بنایا،ایک صوبے پر تمہں حکومت دی تم نے اپنی رعایہ کو کیا دیا ؟ تو کیا جواب دیں گے آپ ؟؟؟