تحریر : چوہدری غلام غوث جیسا کہ ایک حدیث نبویۖکا مفہوم ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے معاشرے میں مرد اور عورت دونوں کا با شعور ہونا معاشرے کے توازن کیلئے ضروری ہے ۔ماں کی گود ہر بچے کی پہلی درسگا ہ ہوتی ہے جس سے ہر بچے کے سیکھنے کا عمل شروع ہوتا ہے ۔دنیا کے ہر والدین کی یکساں خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اگلی نسل اس سے زیادہ بہتر اور مفید ہو تعلیم کے حصول کیلئے ہر والدین کوشش کرتے ہیں کہ ان کا بچہ اچھی درسگاہ میں معیار ی تعلیم حاصل کرے اور مستقبل میں ترقی کی منازل طے کر ے مگر ہمارے حکمران طبقوں کی کبھی بھی یہ خواہش نہیں رہی کہ ہماری قوم تعلیم کا زینہ استعمال کر کے ترقی کی منازل طے کر ے دنیا کا ہر مہذب معاشرہ اپنے شہری کو صحت مند توانا دیکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ ملکی ترقی میں فعال شہری کی حیثیت سے اپنا بھر پور کر دار ادا کرے اس لئے ہر ترقی یافتہ قوم اپنے شہری کی صحت پر سب سے زیادہ توجہ دیتی ہے تاکہ صحت مند توانا جسم ہی اچھی تعلیم حاصل کر سکتا ہے اور اس اچھی تعلیم کے بل بوتے پر وہ مستقبل میں اپنے ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے مگر افسوس کہ ملک کے حکمرانوں کی ترجیحات کچھ اور ہی ہیں ان کی نظر میں ملکی ترقی کا معیار کچھ اور ہے یہ بڑی بڑی عمارتوں اور بڑے بڑے منصوبوںکو ترقی کا معیار قرار دیتے ہیں جبکہ بڑے بڑے انسان پیدا کرنا اور قوم کی قدوقامت میں اضافہ کر کے اسے باوقار بنا کر ملکی ترقی میں کردار ادا کرنے کے قابل بنانا شائد ان کی ترجیحات نہیں ہیں
School
یہ حکمران ایک ایسی قوم ہی تیار کیوں نہیں کر دیتے جو قوم متحد ہو کر اس ملک کو نیک صالح ،با کردار اور محب وطن قیادت دے سکے ۔میں یہ بات وثوق سے کہتا ہوں کہ اس ملک کی لاکھوں مائووں کی شدیدخواہش ہے کہ ان کے بچے سکولوں میں جائیں جبکہ آپکو ڈھونڈنے سے شائد ہی کوئی ایسی ماں ملے کہ جس کی خواہش ہو کہ اس کا بچہ میٹروبس یا اورنج ٹرین میں سفر کرے کیونکہ اپنے بچے کو معیاری تعلیم دینا ہر ماں کا فطری تقاضہ ہے اس کا تعلق غربت یا امارت سے ہر گز نہیں مگر ااس فطری تقا ضے کو پورا کرنا کس کا فرض ہے حکمرانوں کا۔ میں ایک روز اپنے چھوٹے بچے کو سکول چھوڑنے جارہا تھا کہ اس دوران میں نے دیکھا کہ میرے بیٹے کی عمر کا ایک بچہ کوڑے دان سے کا غذ چُن رہا ہے میں نے فوراً اپنے بیٹے کو اس کی جانب متوجہ کر کے کہا بیٹے یہ بھی آپ جیسا بچہ ہے جس کی عمر بھی سکول جانے کی ہے مگر ذرا غور سے دیکھو اس میں اور آپ میں کیا فرق ہے
آپ کے باپ کو اللہ تعالی نے یہ ہمت دی ہے کہ وہ آپکے اخراجات اٹھا سکتا ہے مگر اس بچے کے والدین شائد اس نعمت سے محروم ہیں اور یہ نونہال قوم اتنا مجبور اور بے بس ہے کہ اپنی اور والدین کی روٹی روزی کا بندوبست کرنے میں لگا ہوا ہے میرے بیٹے اس پر خدا کر شُکر ادا کرو کفران نعمت سے بُرا گناہ کوئی نہیں اس بچے کو سکول میں تعلیم کے زیور سے آراستہ کروانا کیا حکمرانوں کا فرض نہیں ہے کیا لاہور جیسے شہر میں بھی جس کی ترقی کا راگ الاپنے والے ہمارئے حکمران اس کے قلابے پیرس سے ملاتے ہوئے نہیں تھکتے اسطرح کے بچے جو کوڑے دانوں میں رزق تلاش کرتے ہیں حکمرانوں کی ترقی کیلئے لمھہ فکریہ ہے۔
یہ قوم کے بچے ہین یہ میرے عظیم ملک کا مستقبل ہیں کیا ان کے ہاتھوں میں کتاب اور قلم اور ان کے کندھوں پر بستوں کا بوجھ اچھا نہیں لگتا ؟ ان پر علم کے دروازے بند کیوں ہیں بچپن میں جب اپنے گائوں کے سکول میں پڑھنے کیلئے جاتے تھے تو راستے میں ملنے والے بزرگ دعا دیتے تھے اور پیار کرتے تھے گال تھپتھپاتے اور شاباش دیتے اور خاص طور پر جب فروری اور مارچ کا مہینہ آتا اور سالانہ امتحانات ہوتے تو واپسی پر آتے ہوئے بزرگ اور بڑے ضرور پوچھتے کہ بیٹا پیپرز کیسے ہوئے ہیںاور ہم اثبات میں بتاتے تو بزرگ شاباش دیتے اور خوش ہو کر چوسنے کے لئے گنا دیتے اور گڑ کھانے کیلئے دیتے ،جو کہ ان کی بیل گاڑی پر پڑا ہوتا۔
Shahbaz Sharif
یہ سبھی بزرگ نہ تو ہمارے رشتہ دار ہوتے تھے اور نہ ہی ہمسائے صرف ایک گائوں کے ہونے کا ناطہ ہوتا تھا مگر وجہ یہ تھی کہ ان کو سکول جاتے بچے اچھے لگتے تھے چہ کہ وہ خود ان پڑھ ہوتے مگر ان کے لا شعور میں یہ بات ضرور ہوتی تھی کہ یہ ہمارا مستقبل ہیں اور یہ پڑھ لکھ کراس ملک و قوم کی خدمت کریں گے یہ قوم کے بچے ہیں ۔اس وقت مستند اعداد و شمار کے مطابق پورے پاکستان میں 25ملین بچے ہیں جن کی عمریں بنیادی تعلیم حاصل کرنے کی ہیں سکولوں سے باہر ہیں اور اس کا نصف سے زائد حصہ پنجاب کے ان بچوں کاہے جن کے وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف ہیں جن کی انتظامی صلاحیتوں کا اعتراف نہ صرف ملکی سطح پر کیا جاتا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی کیا جاتا ہے حیرت کی بات ہے کہ سکولوں سے باہر ان کروڑوں بچوں کیلئے کوئی ٹھوس اور قابل عمل پالیسی ابھی تک تیار نہیں ہو پائی اس پر کوئی خاطر خواہ ہوم ورک نہیں کیا گیاوالدین کو آگاہی دینے کیلئے اور ان کو اپنے بچے کو سکولوں میں داخل کروانے کیلئے کوئی خاطر خواہ عملی اقدمات سامنے نہیں آئے جبکہ اس کام کیلئے نہ ہی خطیر رقم کی ضرورت ہے اور نہ ہی لمبے چوڑے انفر اسٹر کچرکی ضرورت ہے صرف خلوص نیت سے منصوبہ بندی درکار ہے جو خادم پنجاب سے اچھی کون کر سکتا ہے۔
والدین جو بچوں کو سکول نہیں بچھوداتے ان سے اس کی وجوہات معلوم کر کے ان کے تحفظات اور مشکلات کو دور کیا جاسکتا ہے مجھے یقین ہے کہ 75فیصد والدین جو بچوں کو سکول نہ بجھوانے والے والدین میں شمار ہوتے ہیں غربت کے ہاتھوں مجبور ہیں ان کا بھی دل چاہتا ہے کہ ان کے بچوں نے بھی وردی پہنی ہوئی ہو نازو نخرے سے شرارتوں سے محظوظ ہو کر سکول جائیں اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھیں ان کی مائوئوں کی بھی خواہش ہے کہ وہ بھی اپنے لخت جگروں کی زلفیں سنواریں گسیو تیل میں بھگوکر کنگھی کر کے صاف ستھرے کپڑے پہنا کر آنکھوں میں سرمہ ڈال کر ان کو دلہا بنا کر درسگاہ میں بھیجیں مگر ایک غربت ہے کہ جو مسلسل آڑے آرہی ہے
ان وجوہات کا پتہ لگانا کیا حکمرانوں کا کام نہیں کہ جس کی وجہ سے کروڑوں بچے سکولوں سے باہر ہیں کیا اگر اس منصوبے پر عمل کیا جائے تو یہ میگا پراجیکٹ نہیں بن سکتا کیا میٹرو اور اورنج لائن تیار کرنے کی بجائے ایک ایسی قوم ہی تیار کیوں نہ کر دی جائے جو خود مستقبل میں درجنوں ،میٹرو اور اورنج ٹرین سمیت اس سے بھی بڑھ کر منصوبے لگا سکے صبح سویرے کا منظر کسے بھلا محسوس نہیں ہوتاجب بچے بستے اٹھا کر درسگاہوں میں جارہے ہوتے ہیں قوم کے معماروں کو دیکھ کر ہر آنکھ ٹھنڈک محسوس کرتی ہے ہر دل باغ باغ ہو جاتا ہے کیوں اس لئے کہ بچے قوم کے ہوتے ہیں اور یہ وہ سرمایہ حیات ہوتا ہے جو قوم کی تقدیر بدل کر رکھ دیتا ہے انہیں بچوں میں مستقبل کے نواز شریف اور بے نظیریں ہوتی ہیں ۔
Education
اس ترقی کا ہم کیا کریں گے جس سے روزانہ کروڑوں مائووں کے دل صرف اس لئے دکھی ہوں کہ وہ دوسرے کے بچوں کو سکول جاتے ہوئے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہوں اور دل ہی دل میں پشیمان ہوں کہ کاش ان کے پاس بھی سہولت ہوتی کہ ان کے بچے بھی معصومیت میں شہزادوں کا روپ دھار کر مادر علمی کی راہ پر چل کر اس کی آغوش میں جاپہنچتے اور تعلیم جیسے زیور سے آراستہ ہو جاتے علم سے اپنی پیاس بجھا لیتے اس کی روشنی سے اپنا ظاہر و باطن روشن کر لیتے ،کف افسوس کہ ہم صرف یہی کر سکتے ہیں سنبھالو تم اپنی ترقی ایسی ترقی کے ثمرات کس طر ح کے ہونگے خداہی بہتر جانتا ہے ہم اُس نبی کے پیروکار ہیں جو غیر مسلموں کے بچوں سے بھی بھر پور محبت اور پیار کرتے ۔
دنیا کے عظیم 100 رہنمائووں کی فہرست مرتب کر کے کتاب لکھنے والے غیر مسلم مصنف نے نبی آخرالزماں ۖکو پہلے نمبر پر رکھا اور اس کے پیچھے ایک خوبصورت وجہ بیان کی کہ حضور نبی اکرم ۖ کے ایک صحابی کا بچہ گم ہو گیا دونوں میاں بیوی سارے خاندان سمیت بچے کو سارا دن تلاش کرتے رہے مگر نہ مل سکا آخر پر شام کے وقت وہ صحابی آقا کریم ۖ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور مدعابیان کیا کہ یارسُول اللہ میرا بیٹا گم ہو گیا ہے صبح سے کافی ڈھونڈ چکے مگر ملا نہیں آپ ۖ دعا فر مادیں ابھی یہ صحابی اپنی بات ختم ہی کر پائے تھے کہ اس دوران ایک دوسرے صحابی آ گئے انہوں نے بات سن لی تو عرض کیا یا رسول اللہ ان کے بچے کو میں نے فلاں قریشی سردار کے باغ میں بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا ہے۔
جب اس صحابی نے یہ بات سُنی تو فورً ا دوڑنے لگے مگر آپ نے آواز دے کر بلایا اور روک لیا آپ ۖ نے فرمایا کہ ایک باپ کا بیٹا صبح سے گم ہو شام کو اس کے مل جانے کی خبر پا کر ایک باپ کو اسطرح کا ردعمل دینا چاہیے کیونکہ یہ محبت پدری کا فطری تقاضہ ہے مگر سنو جب تم اس باغ میں جائو تو اپنے بیٹے کو نام لے کر بُلانا اور بیٹا کہہ کر نہ بُلاناصحابی نے عرض کیا یارسول اللہ میرا بیٹا ہی تو ہے آپ نے فرمایا بے شک آپ کا بیٹا ہے آپ ۖ نے فرمایا بے شک آپ کا بیٹا ہے مگر بیٹاایک مشترک لفظ ہے جب تم بیٹا کہہ کر پُکارو گے تو ہوسکتا ہے ان بچوں میں کوئی یتیم بچہ بھی کھیل رہاہو اور اس کے دل میں خیال آ جائے کہ آج میرا باپ بھی ہوتا تو مجھے بھی بیٹا کہہ کر بُلانا اور اس کا دل دکھ جائے مصنف لکھتا ہے کہ جو ہستی بچوں کے احساسات کا اس حد تک خیال رکھے اس سے زیادہ عظیم بھلا کون ہو سکتا ہے۔
صبح سویرے سکول جاتے کتنے بچوں کے احساسات اور جذبات احساس کمتری میں بدلتے ہو نگے کتنے والدین کے دل ٹوٹتے ہونگے کیونکہ مجھے تو سکول جاتے بچے ہی اچھے لگتے ہیں اور قدرت کا یہ حُسن دیکھ کر مجھے تو رشک آتا ہے اور یہ منظر اتنا سُہاناہو تا ہے کہ اس کی ٹھنڈک روح تک اتر جاتی ہے بیشک ہم میٹرو بنائیں مگر قوم کے بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے ان کو تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کر دیں۔ ہم کیوں نہ ان کو اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل بنا دیں اپنی میٹرو اوراورنج ٹرین بنانے کے قابل بنا دیں اپنے ڈیم اور فیکٹریاں بنانے کے قابل بنا دیں تاکہ وہ اپنے بہتر مستقبل کا تعین خود کر سکیں ہم صرف انہیں سکولوں کی راہ دیکھا دیں ان کو مادر علمی میں پہنچا دیں