تحریر: ایم سرور صدیقی ایک کنجوس ارب پتی امریکی سے ایک خیراتی ادارے کا کارکن چندہ مانگنے گیا اس نے بڑی کوشش سے ٹھیک ٹھاک معلومات اکٹھی کیں وہ پوری تیاری کے ساتھ گیا تھا اس نے کنجوس ارب پتی سے کہا جناب!ہماری انفرمیشن کے مطابق فلاں بنک میں آپ کے اتنے کروڑ ۔۔فلاں میں اتنے ارب فلاں ریاست میں اتنی جائیداد۔۔فلاں میں دو پلازے، شگاگو میں 2 صنعتی ادارے ،لاس اینجلس میں تین کارخانے۔۔۔اور کئی فیکٹریوں میں آپ کے شیئر ہیں مگر آپ نے کسی بھی خیراتی ادا رے کو آج تک کچھ نہیں دیا۔۔ کنجوس ارب پتی نے بڑے تحمل سے اس کی بات سنی پھر خیراتی ادارے کے کارکن سے کہا تمہاری معلومات انتہائی درست ہیں لیکن کیا تمہیں علم ہے میری ماں اکیلی نیویارک میں رہتی ہے اور اس کی آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں۔۔
”نہیں ۔۔ جناب میرے علم میں نہیں ہے خیراتی ادارے کے کارکن نے سرنفی میں ہلاتے ہوئے کہا ”کیا۔۔۔ تمہیں معلوم نہیں کنجوس ارب پتی نے پوچھا میرا ایک بھائی معذورہے جو خودنہیں کما سکتا کارکن شرمندہ سا ہوگیا اس نے کہا نہیں جناب میرے علم میں یہ بھی نہیں ہے ” یقینا تم ہیں یہ بھی علم نہیں ہوگا۔۔ کنجوس ارب پتی نے کہا ۔۔میری ایک بیوہ بہن ہےاپنے چار بچوں کے ساتھ رہتی ہے اور اس کا بھی کوئی کمانے والا نہیں کارکن بولا میں آپ سے انتہائی شرمندہ ہوں مجھے علم ہوتا آپ پہلے ہی اتنے لوگوںکو پال رہے ہیں تو میں قطعاً یہاں نہ آتا۔۔۔کنجوس ارب پتی نے گرج کر کہا۔۔یہ بات نہیں دراصل میں اپنے ان غریب رشتہ داروںکو کچھ نہیں دیتا تو تمہیں کیوں دوں؟۔۔۔
روپے پیسے کے معاملہ میں اکثرو بیشتر لوگوں اور حکومتوں کا روپہ ایسا ہی ہے رشتوں کا تقدس اب فرسودہ بات سمجھی جاتی ہے دولت کی محبت ہر چیزپر حاوی ہوگئی ہے باوسائل افراد کے پاس دولت کے انبارہیں لیکن ان کی ہوس ختم نہیں ہوتی شنیدہے چند ماہ قبل سندھ کے ایک وزیر کے گھر بیسمنٹ میں آگ لگ گئی اور ایک ارب کے کرنسی نوٹ جل کرراکھ ہوگئے ۔۔۔یہ بھی سننے میں آرہاہے پاکستان کے بڑے بڑے سیاستدانوں، بیوروکریٹس ،جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے غیرملکی بینکوں میں کئی سو ارب ڈالر موجود ہیں اورعوام کے حصہ میں فاقے آرہے ہیں سچی بات تویہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں عوام نے بہت دھوکے کھائے ہیں کبھی اسلام، کبھی سوشلزم،کبھی آمریت اور کبھی جمہوریت کے نام پر۔۔۔بیچاری عوام تو ہر آنے والے حکمران کو اپنا نجات دہندہ سمجھ بیٹھی لیکن کوئی ان کی امیدوں پر پورا نہیں اترا ۔۔۔ حکمران کبھی خسارے کا سودانہیں کرتے ایک ہاتھ سے لے کر دوسرے ہاتھ سے واپس لینے کے انہیں 101 طریقے ازبرہیں ہمارا جمہوریت پر اعتقاد ہے۔
Democracy
جمہوری اداروں پر یقین اور سیاستدانوں کے ارشادات سر آنکھوں پر ۔۔۔لیکن جمہوریت کی بالا دستی کہیں دکھاتی نہیں دیتی ۔۔کیا ممکن ہے حکمران کوشش دل سے کریں تو شاید عوام تک جمہوریت کے ثمرات پہنچ پائیں توعام آدمی کو کچھ ریلیف مل سکتاہے پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں آتی جاتی اور دم توڑتی جمہوریتوں کے دوران کسی بھی حکمران نے عوام کے لئے صدق ِ دل سے کوئی کوشش نہیں کی ہرکسی نے اپنا اقتدار مضبوط بنانے کیلئے بھرپور وسائل استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا اسی لئے مسائل حل نہیں ہو سکے اور حکمران ہیں کہ نہ جانے اپنی کون سی کارکردگی پر اتراتے پھرتے ہیں ان کے حواریوں،حامیوں، چمچوں،کڑچھوں اورچمچوںکے چمچوں کا حال اس سے بھی بد ترین ہے وہ اپنے آقائوںکی خوشنودی کیلئے مرنے مارنے پرتل جاتے ہیں۔۔جب اور جہاں موقعہ ملتاہے اس کا اظہارکرتے رہتے ہیں دھرنوںکے دوران یہ ”بیماری ”عروج پر تھی حالانکہ جب سے ہم نے ہوش سنبھالاہے دن بہ دن معاملات لجھتے ہی جارہے ہیں ہر نیا دن ایک نئے بحران کی خبر دے رہاہے حکومتی سطح پر کوئی حکمت ِ عملی ہے ۔نہ ٹھوس منصوبہ بندی اور نہ ہی ترجیحات کا تعین بس ہر دور میں آوے ای آوے۔۔۔جاوے ا ی جائے کی صدائیں ہیں یا پھر زندہ باد مردہ باد کے نعرے ہر دور میں لگائے جاتے ہیں۔
بس نام بدل جاتے ہیں حکمران انڈرپاسز، سڑکوں کی تعمیر، اوور ہیڈ برج بنانے اورسگنل فری منصوبوں کی نوید سناتے ہیں مہنگائی کی ماری، گراںفروشوں سے تنگ،قتل و غارت سے پریشان، دہشت گردی سے خوفزدہ اور بھوک سے بلبلاتی عوام کیا انڈرپاسز، سڑکوں اورسگنل فری منصوبوںکو چاٹ چاٹ کرپیٹ کا دوزخ بھریں؟۔۔۔ دنیا بھر میں اقتصادی ترقی، صنعتی خوشحالی اور عوامی فلاح کو اولیت دی جاتی ہے لیکن ہمارے حکمرانوںکی ہر منطق نرالی ہے وہ یقینا اپنے آپ کو عقل ِ کل سمجھتے ہیں وہ ایسے منصوبوںپر عمل کرنا ہی نہیں چاہتے جس سے عام آدمی کا فائدہ ہو اسی لئے غریبوںکی حالت بدلنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے جاتے حالانکہ اندھا بھی جانتاہے جب تک عام شہری کی آمدن میں اضافہ کیلئے حقیقی اندازمیںکام نہیں کیا جاتا ملک میں ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندہ ٔ تعبیرنہیں ہوگا اس وقت انرجی کرائسس پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بناہواہے نئے پاور پراجیکٹ کیلئے تو ہمارے وزیر ِ اعظم کا کہناہے کہ پیسے نہیں ہیں لیکن ملک میں میٹرو۔
Power Project
موٹروے، سڑکوں اور رسگنل فری منصوبوں کی نت نئی تجاویزپر عمل کیا جارہاہے ہونا تو یہ چاہیے کہ ملک بھرمیں تمام ترقیاتی کام مؤخر کرکے صرف اور صرف نئے پاور پراجیکٹ لگانے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگادیا جاتا سال دوسال ترقیاتی کام نہ بھی کروائے جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ترقیاتی کا زیادہ تر حصہ افسرشاہی اور ارکان ِ اسمبلی کی جیبوںمیں چلا جاتاہے اگر ایسا کرلیا جاتا تو مستقل بنیادوںپر بجلی کی پیداوار میں اضافہ ممکن تھا۔ ہمارے حکمرانوں کایہ رویہ کنجوس ارب پتی جیساہے جو اپنے غریب رشتہ داروںکو کچھ نہیں دیتا تو عوام کو کیوں دے؟۔۔۔ احتجاج، ہلا گلا، ہائو ہو لاٹھی چارج، ہوائی فائرنگ،منتیں، ترلے ،ہاڑے اور ہاتھ باندھے، مسائل کے مارے لوگوں کا حال اور حالت دیکھ کرشاید حکمرانوں کی انا کو تسکین پہنچتی ہے۔۔
شاید۔دلی خوشی ہوتی ہو۔۔ چہرے چہرے پر بے سروسامانی بھی دیکھ کر دل میں رحم کا جذبہ بیدار نہیںہوتا حکمرانوںکا یہی وطیرہ ہے اور شاید یہی اندازِ سلطانی ہے ۔۔۔کل ہماری یہ باتیں سن کر شیدے نے میدے سے کہا اگرعوام کے مسائل حل ہو جائیں،گھر گھر خوشحالی ہو،ترقی کیلئے ہرشہری کواس کا حق مل جائے۔۔یا تعلیم کے یکساں مواقع سب کو میسر آجائیں تو اس کا مطلب ہے عوام سیاستدانوں، وڈیروں،گدی نشینوں کے چنگل سے آزاد ہوگئے پھر۔۔۔ان کے حق میں نعرے کون لگائے گا؟۔ اپنے بچوں کو ملازمت دلانے کیلئے ان کی منت سماجت کون کرے گا؟۔۔۔میدا یہ سن کر گم سم ہوگیا جیسے سکتہ طاری ہو۔۔۔ تمہیں کیا ہوگا شیدے نے تشویش سے اس کا کندھا جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا۔۔۔میں سوچ میں گم ہوگیا تھا ”کیسی سوچ۔۔۔ ویسے تم سوچنے کب سے لگ گئے اس کا مطلب ہے ہم سیاستدانوں، وڈیروں، گدی نشینوں کے چنگل سے کبھی آزاد نہیںہو سکتے؟ہم تو غلام ابن ِ غلام بنے رہیں گے ”ہاں جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے والے یہی چاہتے ہیں ”یعنی۔۔ان کی خواہش ہے زمانے میں یونہی رات رہے ۔۔یہ اشرافیہ کی خواہش ہے یا سازش؟ مجھے تو لگتاہے دونوں ہی باتیں ہیں ”پھر سمجھو۔۔۔بیڑا غرق ۔ہے ”اللہ نہ کرے۔۔۔