تحریر: شاہ بانو میر الفاظ انگلیاں اٹھتے ہی جیسے کسی زر خرید غلام کی طرح صفحہ قرطاس پے اللہ سبحان و تعالیٰ کی اطاعت سے بکھرتے ہیں تو بکھرتے ہی چلے جاتے ہیں۔ قلم کی یہ خاص عطا ہے جو ہر کسی کو نہیں توفیق مگر ہم اس نعمت کو کم علمی سے غلط استعمال کرتے ہیں لیکن جب اللہ کی عنایت ہوتی ہے تو وہ اسی قلم کو جھاد بالقلم بنا کر اس سے مقاصد پورے کروا لیتا ہے۔ اسی کی دعا کرنی چاہیے کہ ہم ہر نعمت کو بہترین استعمال کر سکیں مکمل شعور سزا و جزا اور احتساب کی سوچ کے ساتھ ۔ قلم کبھی کبھار ساکت ہو جاتا ہے جیسے آج ہوا حروف ساکت و جمد سوچیں جامد اور میں حیران کہ ایسا کیوں؟ قلم نے ہمیشہ میرے ساتھ سمجھوتہ کیا اپنی خواہشات کو ختم کر کے دوسروں کا لکھا اپنے بچوں کو نظر انداز کر کے قوم کے بچوں کو اجاگر کیا۔
اپنے رشتوں کو پس پشت ڈال کر اجتماعی تعلقات کے فروغ پر لکھا کبھی قلم نے حروف نے بغاوت نہیں کی مگر گزشتہ دنوں کسی خاتون کو دیکھا ان کی قربانی کو جانا تو سوچا طبیعت بحال ہوتے ہی ان کے لئے لکھوں گی مجھے کوئی ماں دکھائی دی جس کو آپ تک پہنچانا چاہتی تھی لکھنا چاہتی تھی انہیں مگر یہ کیا؟ ماں پر سمجھوتہ کرنے سے مکمل انکار کر دیا حروف نے سوچوں نے مکمل بغاوت کر دی اور اسکی وجہ اس وقت سمجھ آئی جب علیل ہونے کی وجہ سے کچھ روز گھر بات نہیں ہو سکی طبیعت قدرے مضحمل تھی فون کی مترنم گھنٹی نے بتایا کہ امی جان کا فون آگیا السلام علیکم صدقے جاؤں کہاں گُم ہو؟۔
اللہ اکبر آواز تھی وہ پکار تھی کہ تڑپ تھی بیقرار تڑپ کے ساتھ جو صرف دل پے جا کر اثر کرتی ہے باوجود اس وقت میں خود نانی بن چکی ہوں لیکن اندر دور کہیں ایک بچی ابھی بھی اداس رہتی ہے تکلیف میں ممتا تلاش کرتی ہے جو ماتھا سہلائے جو دعا پڑھ کر پھونکیں چھوٹی الائچی کا قہوہ بنا کر آدھی رات کو چمچ چمچ پلا ئیں دلیہ بنے تو کبھی کھچڑی کبھی دوا کھلائیں تو کبھی دعائیں مانگیں صدقہ خیرات حسب توفیق خوش نصیبی یہ بھی ہے کہ دیار غیر میں آپ کی ہمدرد آپ کی دوستیں آپ کیلئے تہجد میں دعائیں کریں نوافل ادا کریں دعاووں کا اہتمام کریں۔
Mother Love
تیمارداری پھولوں کے انبار یوں کہ ہسپتال والے حیران ہوں کہ آخر یہ مریض ہے کون؟ دوسری جانب آپکا خاندان شوہر بچے اتنے فکر مند کہ آپ کے چہرے کی مسکراہٹ انہیں دنیا جہاں کی نعمتیں عطا فرما دے بچے آپ کے سرہانے کھڑے بہترین خدمت کریں آپ کے اشارے کے منتظر رہیں اٹھنے نہ دیں آپ کیلئے نماز پڑہیں نوافل ادا کریں ماتھا چومیں کھانے کیلئے بار بار اصرار کریں ان کی اتنی محنت اتنی خدمت سب کی سب دل سے قدر کا درجہ پا لیتی ہے مگر اندر کا بچہ وہ سب دیکھ کر مشکور ہے مگرنہ چاہتے ہوئے بھی نظریں دروازے پر اپنی ماں بہن بھائیوں کی منتظر باوجود س کے کہ آپ ان سے ہزاروں کلو میٹر دور ہیں۔
مگر محبتوں کے اسیر ماضی سے وابستگی سے کبھی باہر نہیں نکلتے ایک ہی کھونٹے سے بندھے عمر گزار دیتے ہیں سوچیں وہی ممتا کے محفوظ بازوؤں کا لمس وہی احساس وہی گرمی وہی توجہ مانگتی ہے جو بچپن میں بیماری میں ماں سے ملتی تھی اور پھر جیسے ٹیلی پیٹھی سے ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ سمٹ سا گیا فون کی گھنٹی گنگائئ صدقے جاؤں ماں کی شفیق آواز درد سے لبریز ہُوک جیسے رسیور سے اٹھی ہو وہ جان گئیں وہں بیٹھیں کہ مجھے ان کی ضرورت ہے جملہ یا تاثیر کانوں کی سماعت سے ٹکرائی تو آواز جیسے رُندھ سی گئی خاموش آنسو بہے تو بہتے ہی چلے گئے دوسروں کو حوصلہ دلاسہ دینے والے کبھی کبھی محبتوں کے سیلاب میں یونہی بے وزن تنکہ بن کر بہہ جاتے ہیں۔
ماں کیسا احساس ہے جو روح تک کو جھنجھوڑ دیتا ہے جو ہر سوئے ہوئے خوابیدہ احساس کو پھر سے جگا دیتا ہے جسے کوئی نہیں جگا سکتا جسے کوئی نہیں رلا سکتا ماں کا ایک خلاص محبتوں میں ڈوبا جملہ بھربھری مٹی بنا دیتا ہے ماں کا ایک سچا احساس اسے جھر جھر نِیر بہانے پر یونہی آمادہ کر دیتا ہے جیسے آج میرے ساتھ ہوا میرا درد سکون پا گیا آنسو جو کب سے پلکوں میں مقید خود کو مضبوط ظاہر کرتے ہوئے مجھے ہی دھوکہ دے رہے تھے سب کچھ اگل گئے درد کو شفا مل گئی جو شائد نہ ملتی
Mothers
اگر اس گھڑی ماں کی آواز سنائی نہ دیتی دوسری ماں کو بھول ہی گئی قلم تھاما تو چہرے کے سامنے صرف ایک چہرہ تھا جیسے ہر بچے کے سامنے ہوتا ہے میری ماں اپنی ماں کیلئے نہ لکھنا گویا قلم کے ساتھ انتہائی زیادتی ہوگی ماں کی ریاضتیں اولاد کیلئے اور اولاد کا شکریہ صرف ماں کیلئے نجانے پہلی بار میں میرے اندر جم کر بیٹھ گئی جو کہہ رہی تھی میری ماں ماں صرف میری بچپن اندر سے ابھر کر ڈٹ گیا بچپن میں یہی دیکھا ہم سب مقابلہ کرتے تھے۔
میری امی جان ہیں تو دوسرا کہتا نہیں میری امی جان ہیں آج پتہ چلا یہ خواہش بچپن جیسی آج بھی ویسی ہی توانا ہے یہ سوچ یہ مان یہ غرور ہر بچے کا ہے اور اب حروف کی بغاوت نے سوچ کے انجماد نے سمجھا دیا کہ میں آج بھی انہی بچوں میں ہوں کسی اور کو لکھ ہی نہیں سکتی کیونکہ ماں تو صرف میری ہے سب سے اچھی سب سے پیاری سب سے محترم جیسے آپ کی ہے ہے ناں۔