تحریر : رفعت خان یہ ایک حقیقت ہے کہ! نا اُمیدی ،مایوسی ایک گنا ہ ہے مگر ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اس گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں،ایک وقت تھا جب اِکا دوکا مفلس لوگ نا اُمید ی اور مایوسی کے جال میں پھنسے معلوم ہوتے تھے مگر آج کے دور میں ہر ،امیر غریب بے روزگار عہددار بزنس مین غرضیکہ ہر عام وخاص مایوس و ناامید نظر آتا ہے مگر یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ سیاسی لوگ مایوسی نا امیدی کے نام سے تو واقف ہیں مگر یہ ہوتی کیا بلا ہے؟ یہ نہیں جانتے ۔وہ کیا ہے نا کہ! درد ،وہی جان سکتا ہے جس نے خود کبھی چوٹ کھائی ہوتی ہے ، حالانکہ کرسی نا ملنے کی امید تو ان کی بھی ٹوٹتی ہے مگران کی اُمید فوراً پھر سے جاگ اُٹھتی ہے سیاسی کرسی پر بیٹھنے کی خواہش کرنے والے یہ سیاسی لوگ کرُسی کو ہی دل میں بیٹھالیتے ہیں اور پھر سے اپنی باری کی امید لگا کر خود گھر کی کسی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں تو بھلہ یہ نا امید ی کو کیسے سمجھ سکتے ہیں ۔وقتی ہی سہی اگر انکا دل ٹوٹتابھی ہے تو اِک لمحے کے لیے ضرور سوچیں کہ اُن لوگوں پر کیا گزرتی ہو گی جن کے پاس کوئی وسائل ہی نہیں ہوتے اوراُنھیںنا اُمیدی کے سائے میں زندہ لاشیں بن کرجیناپڑتاہے۔ ایک مفلس انسان کا پڑھا لکھا نوجوان بیٹا اچھی نوکری کے حصول کے لیے جب پارٹ ٹائم جاب کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم جاری رکھتا ہے اور اعلی تعلیم کیلئے اپنی محنت کے علاوہ تعلیمی اخراجات پر اپنی اور اپنے والد کی ساری جمع پونجی لگا کر بڑی بڑی ڈگریاںتو حاصل کرلیتا ہے مگر پھر بھی سارا سارادن بھوکا پیاسا مارا مارا پھرتا ہے اورجب نوکری نہ ملنے پر اُسکی اُمید ٹوٹتی ہے تو اس کے دل پر کیا گزرتی ہوگی؟۔
اور ہر صبح نوکری کی تلاش کیلئے گھر سے نکلنے والے بیٹے کے والدین بیٹے کی اچھی نوکری کی امیدیں لگا ئے بیٹے کی واپسی کا انتظار کرتے ہیں اورہر شام واپسی پربیٹے کے مایوس چہرے کو دیکھ کر جب والدین کی امیدیں ٹوٹتی ہیں تو اس نوجوان بیٹے کو نوکری کے ساتھ ساتھ جینے کی آس تک ختم ہوجاتی ہے۔اچھے رشتوں کی آس لگا ئے بیٹھی لڑکیوں کے بالوں میں چمکتی چاندی جب نااُمیدی کے گھُپ اندھیرے بن کر نمودار ہوتی ہے اور جب بڑی بہنوں کے رشتے نہ آنے کی وجہ سے چھوٹی بہنیں بھی نا امیدہو کر گھر سے بھا گنے پر مجبور ہو جاتی ہیں ۔توایسے گھروں کے مکینوں پر کیا بیتتی ہے؟کتنے ہی اعلی تعلیم یافتہ انسان نوکری نا ملنے سے مایوس ہوکر اپنا کاروبار کرنے کو غنیمت سمجھتے ہیں مگر مہنگائی کی وجہ سے کاروبار میں مسلسل نقصان انھیں مزید کاروبار کرنے سے نا اُمید کر دیتا ہے۔مریض ڈاکٹروں کے پاس جانے سے کتراتے ہیں انھیں نا ہی اسپشلسٹ ڈاکٹر مہیا ہونے کی اُمید ہوتی ہے اور نا ہی اپنے مرض سے چھٹکارا ملنے کی اُمیدہوتی ہے۔
اگرقسمت سے کوئی ڈاکٹر مل بھی جائے تو ڈاکٹرکے لکھے نسخے سے اصلی میڈیسن ملنے سے لوگ نا اُمیدنظر آتے ہیں،اور اسپیشلسٹ ڈاکٹر صاحبان ملکی حالات کے پیش نظر اپنے ملک میں اہسپتال کلینک قائم رہنے سے نا اُمید ہو کر ملک سے باہر سیٹل ہو رہے ہیں۔انجینئراسٹوڈنٹس بہت سی امیدیں لگا کر انجینئر نگ کی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں تاکہ اپنے ملک کی بہتری کے لیے کام کرسکیں گے مگر افسوس انجینئراسٹوڈنٹس نا امید ہو کر نہ چاہتے ہوئے بھی غیرممالک کو فائدے دینے پر مجبور ہیں آخر یہ کب تک مجبوریوں کی ہتھکڑیوں میں جکڑے رہیں گے؟لوگ مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں مگر انھیں امید نہیں ہوتی کہ وہ گھر وآپس بھی آپائیں گے یا دہشت گردی کی نظر ہو جائیں گے۔اساتذہ کو تو اپنے ننھے پھولوں سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی تھیں۔
Teacher Despair
آج کے دور میں اساتذہ بھی نا امید نظر آنے لگے ہیں کہ پتہ نہیں ان کے اسٹوڈنٹس پڑھ لکھ کر ملک کے لیے اپنی خدمات انجام دینے کے لیے کسی عہدے پر فائز ہو بھی سکیںگے یا جاب نہ ملنے سے نا امید ہو کر ڈگریاںاپنی الماریوں میں رکھ کر سبزیوں وغیرہ کے ٹھیلے لگانے پہ مجبور ہوجائیںگے یا پھر خدا نخواستہ کسی ملک دشمن کے ہاتھ تو نہیں آجائیں گے؟ المیہ تو یہ ہے کہ اب ہمارے پیارے معصوم بچّے جو کبھی بہت خوشی سے بتایا کرتے تھے بابا میں آپ کی طرح ڈاکٹر بن کر لوگوں کی خوب خدمت کروں گا بابا میں غریبوں سے فیس بھی نہیں لونگا ،مما میں ٹیچر بن کر غریب بچوں کو مفت پڑھائوں گی اور پھر ہمارا پورا ملک پڑھے لکھے لوگوں سے بھر جائے گا اور ملک خوب ترقی کرے گا،بڑے بھیّا میں انجینئر بن کر گاڑیاں بنا ئو ں گا جس میں غریبو ں کے لیے کرایہ بہت کم ہو گا۔
آج وہی بچے اسکول جاتے ہوئے نا امید ی کے خوفناک سائے آنکھوں میں لیے سوال کرتے ہیں ۔بابا کیا ہم گھر واپس آجائیں گے ناں ؟کیا اسکول جانا بری بات ہے ؟ کیاغریبوں کی مدد کرنا گناہ ہے؟مما میری گڑیا کا ڈھیر سارا خیال رکھنا! نجانے میں اسکول سے لوٹ کر آبھی سکوںگی یا نہیں۔بڑے بھیّا کیا اپنے ملک کو سنوارنے کا جذبہ رکھنے والے سب لوگوں کو ماردیا جائے گاکیا میںبھی انجینئر نہیں بن پائوں گا؟کیا اپنے دوست کی طرح میں بھی شہید ہو جائوںگا؟سوچیں ایسے کتنے ہی معصوم پھولوں کے بڑے بڑے سوالوں پر والدین کے کلیجے نہیں پھٹتے ہوں گے۔
ایسے میں والدین اپنے اِن جگر گوشوں کو اُمید کا کون سا جھولا جھولائیں جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے ننھے ساتھیوں اور اساتذہ کابے دردی سے خون بہانے والے درندوں کو دیکھاہو۔ کاروبای حضرات نااُمید ،عہدے دار نااُمید،زمیندار نااُمید، مریض نااُمید،ڈاکٹر انجینئر نا اُمید،امیر نا اُمیدغریب نا اُمید ،استاد نااُمید شاگرد نا اُمید،پلے دار مزدور کی زندگی اور موت دونوںہی مشکل ہوگئی ہیں۔ نہ بچوں کی تعلیم ،نہ بچیوں کا جہیز،نہ روٹی پوری ،مر جائے تو چندے کا کفن ، (وہ بھی نجانے ملے یا نہ ملے) ایسے میں کون کرتا ہے جینے کی اُمید؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔