تحریر : شیخ توصیف حسین کہاوت ہے کہ پہاڑی علاقے سے تعلق رکھنے والے دو دوستوں نے بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر فیصلہ کیا کہ ہم کسی دوسرے اضلاع میں جا کر اپنے اہلخا نہ کیلئے اس قدر جائز و نا جائز کام کرے گے کہ ہمارے اہلخا نہ اپنی زندگی عیش و آ رام سے گزار سکے بس اسی فیصلے کے ساتھ وہ ایک بس میں سوار ہو کر اپنی نئی منزل کی طرف روانہ ہو گئے بس مکتلف منزلیں طے کرتی ہوئی بالآخر ضلع جھنگ کے معروف ترین چوک ایوب چوک پر پہنچی تو اُن دوستوں نے دیکھا کہ مذکورہ چوک پر بااثر افراد جن میں بعض سیاست دان سر فہرست ہیں لا قانونیت کا ننگا رقص جاری رکھ کر متعدد پٹرول پمپوں پر اور متعدد دوکانوں کو گرا کر غیر قانونی بسوں ویگنوں اور ٹرکوں کے ناجائز اڈے مذکورہ چوک کے گردونواح میں قائم کر کے ٹریفک کے نظام کو بے لگام کرنے میں مصروف عمل ہیں جس کے نتیجہ میں آئے روز ٹریفک کا جام ہونا روزانہ کا ایک معمول بن چکا ہے جبکہ پریشانی شہریوں کا مقدر بن چکی ہے۔
مذکورہ چوک کی اس حالت زار کو دیکھ کر مذکورہ دوستوں نے سوچا کہ اگر مذکورہ چوک پر لا قانونیت کا یہ عالم ہے تو ضلع بھر میں لا قانونیت کا کیا عالم ہو گا ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں پر تو نہ قانون کی حکمرانی ہے اور نہ ہی انسانیت کی کوئی قدر و قیمت یہاں پر تو صرف جنگل کا قانون ہے جس کے نتیجہ میں غریب افراد بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر اپنی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ بااثر افراد من مانیاں کر کے قانون اور انسانیت کی دھجیاں اُڑا رہے ہیں اور اگر حقیقت کے آ ئینے میں دیکھا جائے تو ضلع جھنگ ایک لا وارث ضلع نظر آتا ہے لہذا ہمیں بھی یہی پر رہ کر قسمت آزمائی کر نی چاہیے ہاں البتہ ہمیں یہاں رہنے کیلئے عزت دار بننا ہو گا لہذا آج کے بعد آپ کو مجھے نیازی صاحب کہنا ہو گا جبکہ میں آپ کو ملک صاحب کہہ کر پکارو گا بس اسی طرح یہاں کے مفاد پرست سیاست دان جو ملک و قوم کو دھو کہ دیکر جعلی اسناد کے ذریعے ایم این اے اور ایم پی ایز بن کر حکومت سے بھاری تنخواہیں و دیگر لا تعداد سہولیات حاصل کرنے کے ساتھ تعمیراتی کاموں کی مد میں کروڑوں روپے از خود ہڑپ کر کے ملک کو بھکاری جبکہ عوام کو پریشانی سے دوچار کر دیتے ہیں۔
بعد ازاں جب انھیں معزز عدالت نااہل قرار دیتی ہے تو یہ دند دندتے ہوئے واپس گھروں میں آکر ملک و قوم کو لوٹنے کیلئے سو چنا شروع کر دیتے ہیں جبکہ ہماری حکومت ان نااہل قومی لٹیروں کا احتساب کر نا گناہ کبیرہ سمجھتی ہے جس کے نتیجہ میں آج نااہل قومی لٹیروں کی بھر مار ہو چکی ہے ہاں تو میں بات کر رہا تھا جھنگ کے مفاد پر ست سیاست دانوں کی کہ جن کی لوٹ مار کے نتیجہ میں ضلع جھنگ تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے پسماندگی کی راہ پر گامزن ہو کر صرف تحصیل شورکوٹ اور تحصیل جھنگ تک محدود ہو کر رہ گیا ہے جس کے نتیجہ میں لا تعداد خاندان بے روزگاری کا شکار ہو کر ضلع بدر ہو چکے ہیں جبکہ متعدد خاندان ضلع بدر ہونے کے متعلق سوچ رہے ہیں جبکہ یہاں کے مفاد پرست سیاست دان امیر سے امیر تر ہونے کیلئے یہاں پر آنے والے سینئر آ فیسر کو نیازی صاحب کہہ کر پکارتے ہیں جبکہ سینئر آفیسر انھیں ملک صاحب کہہ کر پکارتے ہیں یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں بلدیاتی نظام کے تحت بننے والے چیر مین بلدیہ جھنگ شیخ نواز اکرم کہ جن کے متعلق تا حال شنید یہ ہے کہ مذکورہ چیرمین اپنے فرائض و منصبی صداقت امانت اور شرافت کا پیکر بن کر ادا کرنے میں مصروف عمل ہے نے حلف وفاداری کے فوری بعد خاکروب جو سر کاری کو ٹھیوں کے علاوہ بااثر افراد بالخصوص ایم پی ایز کی کو ٹھیوں پر اپنے فرائض و منصبی ادا کر رہے تھے کو وہاں سے نکال کر سڑکوں کی صفائی پر مامور کر دیا ہے جو کہ مذکورہ چیرمین کا ایک احسن اقدام ہے۔
Jhang
کاش اس احسن اقدام کے ساتھ ساتھ مذکورہ چیر مین شہر بھر میں بکھڑے ہوئے ناجا ئز اڈوں کا خاتمہ کر کے انھیں عرصہ دراز قبل کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہو نے والے جنرل بس سٹینڈ جھنگ میں منتقل کروانے کی کوشش میں مبتلا ہو جا تا تو آج کروڑوں روپے کی آ مدن کا فائدہ بلدیہ جھنگ کو ملنا شروع ہو جاتا یہی کافی نہیں اگر مذکورہ چیر مین شہر بھر میں بکھرے ہوئے پلازوں اور رہائشی کا لو نیوں کے نقشہ جات کا جا ئزہ لیتا تو کم از کم کروڑوں روپے کا فائدہ بلدیہ جھنگ کو ضرور بر ضرور ہوتا اور اسی طرح اگر مذکورہ چیر مین سابقہ تعمیراتی کاموں کے ٹھیکہ جات کی نگرانی کرے تو یقینا اربوں روپے کی کرپشن منظر عام پر لا سکتا ہے چونکہ لا تعداد تعمیراتی کا موں کے ٹھیکہ جات جو صرف اور صرف سرکاری کاغذات تک محدود ہیں جبکہ اُ ن کا عملی طور پر کوئی نام و نشان تک نہیں ملتا یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہوا یوں کے دیہی علاقے کے افراد نے پانچ ہزار روپے کے عوض مسجد میں امام مسجد رکھا جو بڑی مشکل سے اپنی بسرواوقات کرتا جس کی حالت زار کو دیکھ کر علاقے کے بااثر شخص نے اپنی دو کلہ زمین امام مسجد کو دے دی کاشت کیلئے امام مسجد دن رات محنت کر کے اس زمین پر کاشت کرتا رہا جس کے نتیجہ میں امام مسجد کی کاشت کی گئی۔
زمین کی فصل دن بدن ابھر نے لگی جس کو دیکھ دیکھ کر امام مسجد خوش ہوتا رہا کہ اسی دوران علاقے کے آ وارہ گدھے نے امام مسجد کی فصل کو اُ جاڑنا شروع کر دیا جس کو یوں اُجڑتا ہوا دیکھ کر امام مسجد نے پورے کا پورا قرآن پاک پڑھ کر گدھے پر پھونک دیا اس کے باوجود گدھا یونہی امام مسجد کی فصل کو اُجاڑ نے مصروف عمل رہا بالآ خر علاقے کے ایک کسان کا وہاں سے گزر ہو ا تو اس نے امام مسجد کو کہا کہ کیا دیکھتے ہو اس گدھے کو جو تمھاری فصل اُجاڑ رہا ہے کو اپنی کاشت کی گئی زمین سے نکالو یہ سننے کے بعد امام مسجد نے کسان سے کہا کہ میں تو اسے اپنی کاشت کی گئی فصل سے نکالنے کیلئے نہ صرف پورے کا پورا قرآن پاک پڑھ کر پھونک چکا ہوں بلکہ اپنی ایک مرغی بھی صدقہ میں دے چکا ہوں لیکن اس کے باوجود بھی یہ گدھا یہاں سے نہیں جا رہا یہ سننے کے بعد کسان نے ایک موٹا تازہ ڈنڈا اُٹھا یا اور مار مار کر اس آ وارہ گدھے کو امام مسجد کی کاشت کی گئی فصل سے نکال دیا۔ بالکل اسی امام مسجد کی طرح ضلع جھنگ کی عوام بھی خداوندکریم سے دعا گو رہتی ہے کہ خداوندکریم ان مفاد پرست سیاست دانوں کا خاتمہ کرے جبکہ از خود عوام کچھ کر نے سے قاصر ہے کاش ضلع جھنگ کی عوام بھی اُس کسان کی طرح ڈنڈا ہاتھ میں پکڑ کر ان مفاد پرست سیاست دانوں کا احتساب کرتی تو آج یوں ضلع جھنگ پسماندگی کی راہ پر گامزن نہ ہو تا
بک گیا دوپہر تک بازار کا ہر ایک جھوٹ اور میں شام تک یوں ہی ایک سچ کو لیکر کھڑا رہا