تحریر: عقیل ارشد بٹ کہنا پڑا ہے کہ لکھاریوں کو بھی اب پڑھنے کی ضرروت ہے اور جو بول رہے ہیں ان کو ابھی سننے کی اشد ضرورت ہے، پھر جا کر بات بنے گی۔جس طرح کے حالات چل رہے ہیں ایسے میں ہر شخص بس اپنی واہ واہ بنانے کے چکر میں ساری نسل کو تباہ و برباد کر رہا ہے ،ایسا کرنے کی اجازت کس نے دی؟ پھر یہ جواب خود سے دینا پڑتا ہے کہ یہ تو ہماری ر وایت ہے اب دیکھیں کہ ایک ماڈل کو رہائی ملی تواس مہذب صحافت جیسے پیشے کو بدنام کیے جانے لگا اب کوئی نہ کوئی تو اس معاملے کواٹھائے گا۔
تاثیر ہی الٹی سے اخلاص کے امرت کی ہم جس کو پلاتے ہیں وہی زہر اگلتا ہے
اب میں نے توصرف معاملہ اٹھانے کی بات کی کیونکہ میں بخوبی سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں کسی کو کوئی سرکاری کرسی نہیں ملتی اس لیے اس بات پر کوئی ہنگامہ یا کوئی ریلی کیونکر ہو ،اس حقیقت کو کوئی مانے یا اس سے آنکھیں چرائے کہ روایت کا بہت اثر پڑ تا ہے ماڈل کو رہاکرنا نہیں بنتا تھا اگر اس کو رہا کرنا ہی تھا تو اس کیس کو مکمل طور پر میڈیا کے سامنے واضح کیا جاتا کیونکہ عام لوگوں کا خیال ہے کہ کیس بلکل کلیر تھا اور اس میں سزا بنتی تھی ،مگر نتیجہ کیا نکلا کہ وہی روایتی انداز اپنایا گیا چند لوگوں نے اپنی شہرت کیلئے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
اب اگر ایک باپ اپنے بیٹے کو یہ کہے کہ بیٹا خوب پڑ ھو لکھو گے تو بڑا نام بنے گا اور معاشرے میں عزت ملے گی تو بیٹا جواب دے گا کہ پڑھ لکھ کر اگر ایسے ہی بے عزتی ہونی ہے تو اس سے بہتر ہے کہ ہم بھی اپنی سوچ چوروں ،ڈاکوؤںکی طرح بنا لیں جن کو کم از کم مالی فائدہ تو ہوتا ہے ہمیں اپنی نسل کی ہر ایسی سوچ کو روکنا ہو گا اور اپنے پیشے کو بدنامی سے بچانا ہو گا ۔ کیونکہ یہاں کسی کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ہر شخص اپنی عدالت لگا کر بیٹھا ہے اس میں وہ خود ہی جج ہوتا ہے اور خود ہی وکیل بھی،اگر ایسا چلتا رہا تو پھر ادب کہاں رہ جائے گا یہ تمام حالات سمجھ سے بالاتر تو نہیں مگر روایت نہیں توڑی جائے گی ،ہم نے کبھی روایت کو توڑنے کی زحمت بھی نہیں کی کیونکہ ہمارے پاس وقت ہی نہیں ،ہم تو جوشیلے انداز کو پسندکرتے ہیں۔
Society
اس کی مثال ایسے ہے کہ اگر دو آدمی آپس میں لڑ رہے ہوں تو ان کی نسبت جو آدمی دُور سے جوشیلے اندازمیں نازیبا الفاظ استعمال کر رہا ہو اس کے اردگرد دیکھتے ہی دیکھتے جمِ غفیر بن جائے گا اور سب کہہ رہے ہوں گے کہ بھائی ایسا تو نہ کہو کیونکہ سامنے والا بھی تمہارا بھائی ہے اورلوگوں کے یہ الفاظ جلتی پر تیل کے مترادف ہوتے ہیں ،روایت کی بات ہے تو میرے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ برطانیہ میں یہ دیکھنے کو آیا ہے کہ جب وہاں کوئی مرد یا عورت سڑک کے کنارے بھاگ رہے ہوتے ہیں تو دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ ضرور اِن کی ٹرین یا بس نکلنے والی ہے ،مگر ہمارے ملک میں اگر کوئی بھاگتا ہوا دیکھا جائے تو فوری طورپر ذہن میں یہی بات آتی ہے کہ اس کی کہیں لڑائی ہو گئی ہے یا ابھی ہونے والی ہے ،یہ سادہ سی مثال اس لیے سامنے رکھی ہے تاکہ قارئین ہمارے معاشرے اور ترتی یافتہ ممالک کے معاشرے کے فرق کا اندازہ لگا سکیں ،کہ وہاں کی ترقی کا راز کیا ہے معاشرے میں طور طریقے اور روایات کیسے پروان چڑھتے ہیں تو فوری طور پر کہا جائے گا کہ میڈیا ہی اس کا ذریعہ ہے۔
ایک پروگرام کی مثا ل دوں گا اس کے بعد پتہ چل جائے گا کہ ہر شخص شہرت کا خواہاں ہے ،جیسے میزبان نے پروگرام کے مہمان کے آگے کوئی سوال رکھا تو مہمان نے جب بات شروع کی تو موصوف کی آواز آہستہ آہستہ بلند ہوتی گئی اور بازو ہوا میں لہرانے لگا اورایسا محسو س ہونے لگا جیسے میزبان کمرے سے نکل کر کہیں اور چلا گیا ہواور اب مہما ن کو اُونچا بولنا پڑ گیا ہو۔حالانکہ وہ تو صرف ایک ٹیبل کے فاصلے پر بیٹھا ہوتا ہے پھر یہ شور شرابہ کیوں ؟یہ تو تعریف بٹورنے کی غرض سے کیا جاتا ہے مہمان چونکہ سیاست دان ہوتا ہے اور وہ اس کے ذریعے اپنی دھاک بٹھانے کے چکرمیں ہوتا ہے ۔ اور دوسری طرف میزبان اپنی ریٹنگ زیادہ کرنے کے چکر میں ہوتا ہے ،اب سکرین کے اُس پار عام عوام کو کیاپیغام جا رہا ہے ،نشریات تو پوری دُنیا میں چل رہی ہوتی ہیں تو پوری دُنیا میں خالی اس ایک شخص کی بات کی وجہ سے پوری قوم کا امیج بن رہا ہوتاہے داد لینے کے چکر میں سب چکرا گئے ہیں۔سیاست دانوں کو مفاد پرست کہنے والے خود فر شتے بنے پھرتے ہیں عام طور پر پاکستانی قوم کے لیے کہا گیا تھا کہ اگر اِن پر حکمرانی کرنی ہے تو اِن کو ادب اور تہذیب سے دُور رکھنا ہو گا۔
اب منظر کچھ اسی طرح کا بنتا نظر آ رہاہے اورمعاشرے کو ایسے بنایا جا رہا ہے جیسے دو افراد آپس میں لڑ رہے ہوں تو ایک مہذب شخص پاس سے گزرتے ہوئے کہتا ہے کہ تم ہاتھوں سے لڑائی کیوں کر رہے ہو جیب میں جو پستول ہے اس کو استعمال کیوں نہیں کرتے، یعنی پھر جلتی پہ تیل کاکام کہ اس کو یاد دلایا جا رہا ہے کہ پستول کا استعمال کرو ،اگر ہمیں معاشرے کو بہتر بنانا ہے تو بحثیت پاکستانی سب کو اپنے اخلاق کو بہتر بنانا پڑے گا۔
اخلاق کی بات صرف یہ نہیں کہ نرم انداز میں ہی بول کر بس ذمہ داری پوری ہو گئی بلکہ اقتدار کی ذمہ داری بھی اچھے سینبھانا ضرروی ہے اور جو اعتراضات کیے جائیں اُن کے جوابات بھی دئیے جانے چاہیے،صرف بات کو گول کر دینے سے کام نہیں چلے گا قلم کی طاقت کو زورِ بازو سے روکا نہیں جا سکتا اور شور شرابے سے بہتری نہیں لائی جاسکتی ، بہتری لانے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے تب کہیں جا کر ہم ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں شامل ہو سکتے ہیں۔