تباہ حال شام اور بے حس اہل اسلام

Syria

Syria

تحریر : ساجد حبیب میمن
مشرق وسطی کا اہم اسلامی ملک شام گزشتہ چھ سال بدترین خانہ جنگی کا شکار ہے۔یہ خانہ جنگی اکیسیویں صدی کا بدترین انسانی المیہ ہے۔ شام کے شہر، گلیاں ،بازار، سکول اور ہسپتال جہاں چند سال قبل تک زندگی رقص کرتی ہے وہاںآج وحشت ویرانی اور موت کا راج ہے۔ اہلِ مغرب اور ہمارے اپنے نام نہاد مسلمانوں نے شام کے اندر بربریت اور درندگی کی تمام حدیں پار کر دیں ہیں۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے شام کی سرزمین کوئی جنگل ہو اور شام کے باسی جانور۔۔ جن کا شکار کرنے کے لئے دنیا بھر کے شکاری اکٹھے ہو گئے ہیں اور اس ہنستے بستے ملک کو موت کی شکار گاہ بنا دیا ہے۔ دنیا بھر کی طاقتوں نے شام کے شہریوں کو کس جرم کی سزا دی گئی؟ ان کی نسل کشی کیوں کی جارہی ہے؟ ان کی مدد کرنے کون آئے گا؟ مسلمان ممالک شام کے لئے کیا کر رہے ہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ کوئی اس کا جواب دینے کے لئے تیار ہے۔کفار تو یکجا ہو کر ایک ایک کر کے مسلم ممالک کا خاتمہ کر رہے ہیں لیکن مسلمان یا تو خود ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں یا پھر کفار سے مل کر ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ شام کی صورتِ حال پر اسلامی دنیا نے ایسے چپ سادھ لی ہے جیسے کہ یہ کسی دوسرے سیارے کا مسئلہ ہو۔سعودی عرب امریکہ کے ساتھ مل کر باغیوں کی مدد کر رہا تو دوسری طرف ایران روس کے ساتھ مل کر بشارالاسد اور ان کی حامیوں کی مدد کر رہا ہے۔

امریکہ، سعودی عرب اور ان کے اتحادی بشارالاسد کی حکومت کو ختم کرنے کی آڑ میں معصوم شہریوں پر اپنا گولہ بارود آزما رہے ہیں جبکہ روس اور ایران مل کر باغیوں کو کچلنے کے نام پر شامی مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہے ہیں۔ دونوں گرپوں کی لڑائی میں نقصان شہریوں کا ہو رہا ہے۔ اس لڑائی میں تیسرا فریق داعش ہے جسے دو سپر پاورز کی کشمکش مضبوط بنا رہی ہے۔ اس مسئلہ کا ایک اہم فریق شام کا ہمسایہ ملک ترکی بھی ہے جو ابھی تک دانشمندی کا مظاہرہ کر رہ ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ترکی کو شام کی جنگ میں پھنسا کر پاکستان جیسا حال کر دیا جائے لیکن طیب اردگان نے اس امریکی مطالبے کو بارہا یہ کہہ کر رد کر دیا ہے کہ ترکی پاکستان نہیں بننا چاہتا۔ شام کے مسئلہ کو سمجھنے کے لئے اس مسئلہ کا تھوڑا سا پسِ منظر بیان کرتا چلوں۔ شام کی سرحدیں عراق، ترکی،اردن، لبنان اور اسرائیل سے ملتی ہیں ۔ شام کی خانہ جنگی سے قبل کے اعداد و شمار کے مطاق شام میں 70فی صد سنی (بشمول 14 فی صد کرد)، 12 فی صد شیعہ مسلک کے لوگ آباد تھے جبکہ 12 فی صد علوی( شیعہ مسلک کا ایک گروہ) اور 10 فی صد عیسائی تھے۔ 2000 ء سے اب تک شام میں صدر بشارالاسد کی ڈکٹیٹرشپ قائم ہے۔

صدر بشارالاسد کے خاندان کا تعلق اقلیتی علوی گروہ سے ہے اور اس خاندان نے شام کے فوجی اور دفاعی اداروں پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ شامی حکومت کے خلاف عوامی بغاوت کا آغاز مارچ 2011 میں ہوا جب شام کے عوام نے حکومت کی جابرانہ پالیسیوں اور معاشی استحصالی کے خلاف احتجاج شروع کیا۔ بشارالاسد نے عوامی احتجاج کو کو کچلنے کی کوشش کی اور عوامی احتجاج مسلحہ بغاوت کے میں تبدیل ہوگیا۔ اس مسلحہ بغاوت کو عرب ممالک اور اور امریکہ نے کھل کر سپورٹ کیا۔ باغی گروہوں اور فوج کے درمیان تصادم کے نتیجہ میں شامی عوام کے جان و مال کے ضیاع کے ساتھ ساتھ شام کی سا لمیت کو بھی خطرات لاحق ہوگئے ۔ شام میں اس وقت جاری خانہ جنگی میںمختلف گروہ برسرِ پیکار ہیں۔ان میں سب اہم ”فری سِر ین آرمی”( جو کہ بشارالاسد کی فوج کے باغیوں پر مشتمل ہے اور جس نے سب سے پہلے شامی حکومت کے خلاف 2011 ء میں ہتھیار اٹھائے) اور ”اسلامک فرنٹ” ہیں۔ اسلامک فرنٹ 2013ء میں وجود میں آئی۔ حزب اللہ بھی 2013ء میں شامی فوج کی مدد کے لئے میدان میں آگئی۔ شام کے مشرق میں ”اسلامک سٹیٹ آف عراق اینڈ لیونٹ” (ISIL عراق سے شروع ہونے والے ایک نام نہاد جہادی گروپ نے تیزی سے علاقوں پر قبضہ کیا۔

Syria Blast

Syria Blast

جولائی 2013ء میں شامی افواج کے پاس ملک کا 40 فی صد علاقہ 60 فی صد آبادی کنٹرول میں تھی۔ 2014 ء میں آئی ایس آئی ایل نے شام کے ایک تہائی علاقہ اور تیل اور گیس کے بیشتر پیداواری کنوؤں پر قبضہ کر کے خود کو حکومت کے لئے سب سے بڑی مزاحمتی طاقت کے طور پر منوا لیا۔ اس خانہ جنگی کے نتیجہ میں شام میں حکومتی افواج اور باغیوں کی طرف سے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں کی گئی ۔ کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کئے گئے ، شامی فوج نے باغیوں کے خلاف کلسٹر بم استعمال کئے جس کے استعمال پر اقوام متحدہ کی طرف سے پابندی ہے۔2012 ء میں بشارالاسدحکومت نے باغی ٹھکانوں پر سَکڈ مزائل برسائے اوراس میں بے شمار بے گناہ افراد مارے گئے۔ اس کے علاوہ باغیوں کی جانب سے خود کش دھماکوں سے بھی شامی شہری ہی زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔شام کا شہر دمشق مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے جبکہ ان دنوں حلب بربادی اور بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ شام میں جاری خانہ جنگی کی جو بھی وجوہات ہوںاس کے نتیجہ میں بے پناہ جانی و مالی نقصان ہو چکا ہے۔ الجزیرہ ٹی وی کی 7 فروری 2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق 2011 سے لے کر اب تک4,50,000 انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، دس لاکھ سے زائد افراد شدید زخمی ہوئے ہیں۔ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے ہیں۔تقریباً پچاس لاکھ شامی شہری ملک چھوڑ چکے ہیں اور ترکی، کینیڈا، جرمنی اوردوسرے یورپی ممالک میں دربدر ہیں۔

تیس لاکھ پناہ گزین ترکی میں موجود ہیں۔ گزشتہ بیس سال میں کسی بھی ملک میں یہ مہاجرین کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ شام میں شہری زندگی مکمل طور پر ناپید ہوگئی ہے۔ زخمیوں کے علاج کے لئے ہسپتال تو دور کہیں کوئی ڈسپنسری تک نہیں۔ کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں۔ شام میں بس ایک چیز کثرت سے میسر ہے اور وہ ہے موت۔ بیرونی طاقتوں کی مداخلت نے صورتِ حال کو گھمبیر اور نا سلجھنے والی گتھی بنا دیا ہے۔ نہ بشارالاسد کی حکومت کا کوئی مسقبل نظر آرہا ہے اور نہ ہی باغی کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔بشارالاسد کی حکومت سے نہ صرف شام کے عوام تنگ ہیں بلکہ شام کے پڑوسی ممالک بھی بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اس وقت شام کاتیس فی صد علاقہ آئی ایس آئی ایل ، تیس فی صد بشارالاسد کی حکومت اور بیس فی صد کردش فوجوں کے قبضہ میں ہے جبکہ باقی علاقہ باغی گروپوں، ترکش آرمی اور دیگر کے قبضہ میں ہے امریکہ شامی باغیوں کو ہر طرح سے معاونت فراہم کر رہا ہے۔ انہیں مالی وسائل اور ہتھیار فراہم کر رہا ہے بیرونی مداخلت نے شام کی بقاء اورسا لمیت کو خطرت میں ڈال دیا ہے۔شام میں جب تک بشارالاسد کی ڈکٹیٹر شپ قائم تھی عوام خوشحال تھے اور زندگی عروج پر تھی۔ لیکن بیرونی طاقتوں نے شام کو خانہ جنگی میں الجھا کر پورے مشرق وسطیٰ پرکنٹرول کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔

دنیا کی تاریخ کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ اقوام بیرونی طاقتوں سے جنگیں لڑنے سے اس قدر کمزور نہیں ہوتیں جتنااندرونی انتشار، سیاسی عدم استحکام یا خانہ جنگی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ بعض اوقات بیرونی طاقت سے جنگ کسی قوم کے لئے مفید ثابت ہوسکتی ہے اور یہ خوشحالی اور خوش قسمتی کانیا دور بھی لا سکتی ہے کیونکہ اقوام بیرونی طاقتوں سے جنگیں ہمیشہ قومی مفاد میں کرتی ہیں۔ اندرونی انتشار یا خانہ جنگی ہمیشہ اقوام کے لئے بدحالی اور اور بدقسمتی ہی لاتی ہیں کیونکہ یہ قومی مفادات کے تحت نہیں بلکہ ذاتی مفادات یا گروہ بندی کی تحت ہوتی ہیںیابعض اوقات کسی بیرونی ایماء پر ہوتی ہیں۔ تاریخ کے جس باب کا ہم حصہ ہیںاس میں سپرپاورز کی طرف سے ناپسندیدہ ممالک یا اقوام کے درمیان اندرونی انتشار یا خانہ جنگی پیدا کر کے مفادات حاصل کرنا جنگوں سے زیادہ مؤثر ثابت ہو رہاہے۔ امریکہ اور مغرب کی طرف سے یہ ہتھیار مسلم ممالک کے خلاف مسلسل استعمال کیا جارہا ہے ۔ شام کا مسئلہ کیسے حل ہوگا ابھی تک کوئی سمجھنے والی صورتِ حال سامنے نہیں آ رہی۔ اقوام متحدہ امریکہ کے گھر کی لونڈی ہونے کی وجہ سے اس مسئلہ پر مکمل طور پر ناکام ہو چی ہے۔ اگر مسلمان ممالک اپنی بقا چاہتے ہیں تو انہیں کفار کی اس سازش کو سمجھنا ہو گا اور متحد ہو کر مقابلہ کرنا ہو گا۔ بصورت دیگر ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔

Sajid Habib

Sajid Habib

تحریر : ساجد حبیب میمن
sadae.haq77@gmail.com