بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) گزشتہ روز بھارتی وزیر اعظم نے دعویٰ کیا تھا کہ کوئی بھی پوسٹ یا علاقہ چین کے حوالے نہیں کیا گیا لیکن چینی حکومت کا بیان اس سے بالکل مختلف حقیقت بیان کرتا ہے۔ کیا بھارت پس پردہ گلوان کی وادی چین کو ’سونپ‘ چکا ہے؟
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ وادی گلوان سے متعلق وضاحت کریں کہ وہ اس وقت کس کے کنٹرول میں ہے؟ گزشتہ روز بھارتی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ کوئی علاقہ یا فوجی پوسٹ چین کے حوالے نہیں کیے گئے۔ وزیر اعظم مودی کے اس خطاب کے بعد چینی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پوری وادی گلوان وادی چین کے دائرہ اختیار میں ہے۔
بیجنگ میں وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان کا کہنا تھا، ”گلوان کی وادی لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے ساتھ چینی علاقے کے اندر واقع ہے۔ چینی سرحدی فورسز گزشتہ کئی برسوں سے وہاں گشت کر رہی ہیں۔‘‘ ترجمان کا مزید کہنا تھا، ”پوری وادی گلوان ہماری ہے۔‘‘
اس چینی بیان پر بھارت کی ہندو قوم پرست جماعتیں شدید غم و غصے میں ہیں۔ بھارت کی شدت پسند ہندو تنظیم شیوسینا کی ڈپٹی لیڈر پریانکا وکرم نے ملکی قیادت سے اس حوالے سے وضاحت پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”مرکزی حکومت اس چینی بیان کی وضاحت کرے۔ کیا یہ سچ ہے کہ گلوان کی وادی چین کے حوالے کر دی گئی ہے؟‘‘
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ وادی گلوان سے متعلق وضاحت کریں کہ وہ اس وقت کس کے کنٹرول میں ہے؟
دوسری جانب نریندر مودی کی حکومت ابھی تک اس چینی دعوے کے حوالے سے خاموش ہے اور اس کی تصدیق یا تردید کرنے سے گریزاں ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو نے کہا ہے کہ وہ فی الحال اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔
تاہم انہوں نے یہ ضرور کہا کہ یہ دعوی ‘مبالغہ آمیز‘ ہے۔ سکیورٹی ماہرین کے مطابق اگر چینی دعویٰ غلط ہوتا تو بھارت کی مرکزی حکومت کی طرف سے فوری طور پر اس کی تردید کر دی جاتی۔
چین اور بھارت کے درمیان مشرقی لداخ کی گلوان وادی میں حالیہ جھڑپ کے نتیجے میں بیس بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد سے دونوں ملکوں کی جانب سے کشیدگی کم کرنے پر اتفاق کے باوجود وہاں تناؤ برقرار ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ حالیہ کشیدگی کے پیچھے ‘قصور صرف بھارت‘ کا ہے، ”اس دور دراز علاقے میں بھارتی افواج اپریل کے بعد سے یک طرفہ طور پر سڑکیں، پل اور دیگر بنیادی ڈھانچے تعمیر کر رہی ہیں۔‘‘ مئی میں ایک ‘اشتعال انگیز کارروائی‘ کے بعد دونوں ممالک کے فوجی کمانڈروں نے اتفاق کیا تھا، ”بھارتی افواج ایل اے سی سے پیچھے ہٹ جائیں گی اور وہاں اپنی تنصیبات ختم کر دیں گی۔‘‘
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے بھارتی فورسز پر ‘معاہدے کی خلاف وزری اور پیشہ وارانہ اشتعال انگیزی‘ کا الزام بھی عائد کیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق متعدد بھارتی فوجی اب بھی چین کے قبضے میں ہیں لیکن چین نے اس کی تردید کی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مذاکرات کے بعد چین دس بھارتی فوجیوں کو رہا کر چکا ہے۔
دریں اثناء دونوں ملکوں نے کہا ہے کہ وہ اس مسئلے کا مذاکرات کے ذریعے حل چاہتے ہیں اور دونوں ہمسایہ ریاستوں کے فوجی حکام اس سلسلے میں ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب چین اور بھارت دونوں ہی اس متنازعہ سرحدی علاقے میں اپنی عسکری قوت میں اضافہ بھی کر رہے ہیں۔