اسلام آباد (جیوڈیسک) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے دوران حراست تشدد کے خاتمے کا بل متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔ بل کے مطابق زیر حراست شخص پر ذہنی یا جسمانی تشدد سے لیا گیا کوئی بیان قابل قبول نہیں ہو گا، اگر تشدد سے ہلاکت ہو گئی تو سزا عمر قید اور 30 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی داخلہ نے پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے پیش کیا گیا انسداد تشدد بل متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ بل کے مطابق اس ایکٹ کو وفاقی حکومت کے تمام دیگر قوانین اورقواعد پر ترجیح حاصل ہو گی ۔ بل کے مطابق حراست کے دوران کسی بھی فرد کو ذہنی یا جسمانی تکلیف پہنچانا تشدد کہلائے گااور تشدد کے ذریعے لیا گیا کوئی بھی بیان قابل قبول نہیں ہو گا۔
معلومات کے حصول یا اقبال جرم کرانے کیلئے زیرحراست فردپر تشدد کی سزا کم از کم 5 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا، ہلاکت پر سزا عمر قید اور 30 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔زیر حراست خاتون کے ساتھ بدسلوکی پر بھی عمر قید اور 30 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔ جرمانے کی رقم متاثرہ فریق کو دی جائیگی۔کسی خاتون کو ملزم سے متعلق معلومات کے حصول کیلئے حراست میں نہیں رکھا جا سکے گا۔ خاتون ملزم کو صرف خاتون سیکیورٹی اہلکار ہی حراست میں لے سکتی ہے، کسی مرد سیکیورٹی اہلکار کو اجازت نہیں ہو گی۔
تشدد کرنے والے کسی شخص سے متعلق شکایات ایف آئی اے یا سیشن جج کو پیش کی جا سکتی ہیں۔تشدد سے متعلق شکایات کی تحقیقات 14دن کے اندر مکمل کی جائینگی اور کیس کا ٹرائل 3 ہفتوں میں مکمل کیا جائیگا ، اس حوالے سے فیصلے کے خلاف 10 دن کے اندر ہائیکورٹ میں اپیل داخل کی جا سکے گی ،عدالت 30 دن میں فیصلہ دینے کی پابند ہو گی۔ جس سرکاری ملازم پر تشدد کرنے کا الزام ہو گا، اسے تحقیقات کے دوران معطل کیا جائے گا یا کسی اور جگہ تبادلہ کر دیا جائیگا۔
زیر حراست شخص پر تشدد کا جرم قابل دست اندازی پولیس اور ناقابل ضمانت ہو گا۔ حالت جنگ، ایمرجنسی، سیاسی عدم استحکام یا کسی اعلیٰ شخصیت اور مجاز اتھارٹی کے احکامات بھی زیر حراست شخص پر تشدد کا دفاع نہیں کرینگے۔ کسی کو بدنام کرنے کی نیت سے شکایت درج کرانے والے کو بھی ایک سال قید یا ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔