برلن (جیوڈیسک) اہلکار امریکی سفارت خانے میں سی آئی اے کے نمائندے کے طور پر کام کرتے تھے۔
اس سلسلے میں گزشتہ ہفتے ایک 31 سالہ جرمن انٹیلی جنس کے ایک اہلکار کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور اطلاعات کے مطابق وزارتِ دفاع میں امریکہ کے لیے جاسوسی کرنے کے شک میں ایک اور جرمن فوجی کے بارے میں تفتیش کی جا رہی ہے۔ اگرچہ ابھی تک کوئی گرفتار عمل میں نہیں آئی تاہم وزارتِ دفاع میں جانچ پڑتال کا عمل جاری ہے۔
جرمن حکومت کے ترجمان سٹیفن سائبرٹ کے مطابق امریکہ کے سفارت خانے میں خفیہ ایجنسی کے اہلکار کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ جرمن پارلیمان کی خفیہ سروس کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کے چیئرمین کے مطابق امریکی جرمن سیاست دانوں کی جاسوسی کر رہے تھے جبکہ تعاون کرنے اور مناسب ردعمل کا مظاہرہ نہ کرنے کی صورت میں یہ قدم اٹھایا گیا۔
جرمن پارلیمان کی خفیہ سروس کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کے چیئرمین کے مطابق امریکی جرمن سیاست دانوں کی جاسوسی کر رہے تھے جبکہ تعاون کرنے اور مناسب ردعمل کا مظاہرہ نہ کرنے کی صورت میں یہ قدم اٹھایا گیا۔ امریکہ نے ابھی تک اس الزام کی تردید نہیں کی جس میں جرمن خفیہ ایجنسی کے اہلکار کو خفیہ دستاویزات امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کو دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
رواں ہفتے ہی جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے کہا تھا کہ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ جرمن انٹیلی جنس کے ایک اہلکار نے امریکہ کے لئے جاسوسی کی تو یہ دونوں اتحادیوں کے درمیان اعتماد کی واضح خلاف ورزی ہوگی۔ جرمنی امریکہ پر دبائو ڈالتا رہا ہے کہ وہ اس بات کی وضاحت کرے۔
یہ معاملہ امریکہ اور جرمنی کے تعلقات پر ایک مرتبہ پھر منفی اثر ڈال رہا ہے۔ اس سے قبل حال ہی میں انکشاف کیا گیا تھا کہ امریکہ حکام نے جرمنی کی چانسلر کی جاسوسی کی تھی۔ جرمن وزیرِ خارجہ فرینک والٹر شٹائن مائر کہہ چکے ہیں کہ اگر امریکی مداخلت ثابت ہوئی تو دونوں ممالک کے روزمرہ تعلقات پر غیر معینہ اثر پڑے گا۔
انھوں نے کہا کہ اگر امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ملوث ہونے کا ثبوت ملا تو یہ ایک سیاسی معاملہ بن جائے گا اور ایسے میں آپ پرانے تعلقات کی طرف واپس نہیں جا سکتے۔ یاد رہے کہ سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن کہہ چکی ہیں کہ امریکہ کسی بھی ملک کے ساتھ ایسا معاہدہ نہیں کرے گا کہ وہ کبھی اس کی جاسوسی نہ کر سکے۔
اس سے پہلے گزشتہ سال سی آئی اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے افشاء کی جانے والی دستاویزات کے مطابق امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی جرمن چانسلر سمیت 34 عالمی رہنمائوں کی نگرانی کرتی رہی ہے۔ ان دستاویزات کے سامنے آنے کے بعد امریکہ پر عالمی دبائو بڑھا تھا کہ وہ جاسوسی کے پروگرام کی وضاحت کرے جبکہ جرمنی اور امریکہ کے تعلقات میں اس میں کشیدگی آئی تھی۔