تحریر: شیخ خالد ذاہد پاکستان وہ ملک ہے جہاں سیاسی و مذہبی جماعتوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔۔۔۔سیاسی جماعتیں لاسانیات پر سیاست کر رہی ہیں، علاقائی سیاست کر رہی ہیں۔۔۔۔مذہبی جماعتیں مسالک میں تقسیم کرنے کا ذمہ اٹھائے ہوئے ہیں۔۔۔۔پاکستان وہ ملک ہے جہاں غیر سرکاری تنظیموں کی گنتی کرنا مشکل ہے۔۔۔۔پاکستان میں فلاحی اور رفاعی اداروں کا شمار ناممکن ہے۔۔۔۔کتنے ہی اداروں کی درسگاہیں ہیں جو تعلیم کا ذمہ اٹھائے ہوئے ہیں۔۔۔۔یہ ادارے مختلف شعبوں میں اپنی اپنی خدمات فراہم کررہے ہیں ۔۔۔۔جیسا کہ آنکھوں کی امراض سے متعلق، سماعت کیلئے ، گردوں کہ کیلئے،
اگر یہ لکھا جائے کہ انسانی جسم کے ہر حصے پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔۔۔۔مدارس ایک طرف تو دینی فرائض اور احکامات کی بالادستی کیلئے بر سرِ پیکار ہیں تو دوسری طرف یہ مدارس دارلامان جیسی اہم ذمہ داری بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔۔۔۔ان مدارس میں جہاں دینی و دنیاوی تعلیم کا انتظام ہے وہیں یہ مدارس کڑوڑوں کی تعداد میں بچوں کو کپڑا، کھانا اور رہاہش جیسی اہم ترین بنیادی سہولیات فراہم کیئے ہوئے ہیں (جو اصولی طور پر ریاست کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے) ۔۔۔۔تینوں اوقات میں کھانے کا مفت بندوبست جگہ جگہ کیا گیا ہے ، مختلف ادارے دسترخوان لگائے بیٹھے ہیں اور بلا تفریق کھانا کھلا رہے ہیں۔۔۔۔کہیں کوئی لڑکیوں کہ جہز اور شادی سے متعلق دیگر امور سرانجام دے رہے ہیں۔۔۔۔
heaven
مذکورہ بالا تمام ادارے اور افراد انسانیت کی بھلائی کیلئے بر سرِ پیکار ہیں۔۔۔۔بڑھ چڑھ کر اپنے اپنے امور میں سبقت لینے میں سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔۔۔۔یقینا یہ لوگ ان تمام نیک کاموں کہ عوض قدرت سے جنت کہ متمنی ہیں۔۔۔۔ان تمام اداروں کو چلانے کیلئے خطیر رقم جو چندے کی صورت میں لوگ دے رہے ہیں۔۔۔۔محرومی کتنے بڑے پردے میں پوشیدہ ہو کر کسی بھی شکل میں ہمارے سامنے ہو اس سے نمٹنے کیلئے ہم سب تیار ہیں۔۔۔۔اپنا اپنا حصہ کم یا زیادہ ڈال رہے ہیں۔۔۔۔یہ بھی نہیں کہ کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا۔۔۔۔بلکل آپ خود جا کر ان اداروں کا جائزہ لیں ۔۔۔۔تاکہ ہمارے ذہنوں میں اٹھنے والے تمام سوالوں کہ جواب اپنی آنکھوں کہ سامنے نظر آجائں۔۔۔۔
خدمت کو عبادت سمجھنے والے ۔۔۔۔خدمت کہ جذبے سے سرشار لوگ بغیر کسی تفریق اور تعصب کہ بغیر کسی سیاسی وابستگی کہ ، بغیرکسی مذہبی رجحان کہ لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔۔۔۔یہ نہیں پوچھتے یہ کون سی زبان بولتا ہے ، کس مسلک سے تعلق رکھتا ہے۔۔۔۔انہوں نے اپنے آپ کو خدائی فوجدار بنا رکھا ہے۔۔۔۔ قلم کار بھی معاشرے کو راستے کہ پیچو خم سمجھانے میں مصروف ہیں۔۔۔۔اچھے برے میں تفریق کرنے کی صلاحیتیں فراہم کر رہے ہیں۔۔۔۔وقت و حالات سے با خبر رکھنے کیلئے کوشاں ہیں۔۔۔۔ ان کی زندگیاں بھی خطرے میں ہیں یہ لوگ بھی اپنی قیمتی زندگیوں کا نظرانہ پیش کر چکے ہیں۔۔۔۔یہ اپنا کام بہت احسن طریقے سے جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔یہ وہ لوگ ہیں جو معاشرے میں پیدا ہونے والی نفسا نفسی کو محسوس کرتے ہیں۔۔۔۔کسی بڑے سانحے حادثے سے پہلے خلقِ خدا کہ سامنے نکال کر رکھ دیتے ہیں۔۔۔۔یہ وہ لوگ ہیں جو عوامی نمائندوں کو انکے علاقوں کہ مسائل سے بھی آگاہ کرتے ہیں تو دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے کا بھی دھیان وہاں لے جاتے ہیں جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔یہ بغیر کسی عنوان کہ قلمی فوجدار ہوتے ہیں۔۔۔۔
Society
جو آگہی کی مشعل لئے آگے سب سے آگے چلتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔ کیا ان کی قدر کرنا معاشرے پر ایسے ہی لازم نہیں جیسے ہمارے ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے۔۔۔۔قلم کاروں کی بھی اخلاقی اور معاشرتی ذمہداری ہے کہ وہ فساد سے خود کو اور دوسروں کو محفوظ رکھیں۔۔۔۔بلا تفریق ایسے معاشرتی عوامل منظرِ عام پر لاتے رہنا چاہئں۔۔۔۔آج کہ دور میں قلمکاروں کو کردار بہت ہی اہمیت کا حامل ہوتا جارہا ہے۔۔۔۔کوئی قصیدے لکھنے کا پابند بنا بیٹھا ہے تو کوئی دنیا کی ترقی میں پوشیدہ رازوں پر سے پردے اٹھا رہا ہے ۔۔۔۔ سب اپنی اپنی جگہ اپنا کام بہت احسن طریقے سے سر انجام دے رہے ہیں ۔۔۔۔ایک ضابطہ اخلاق کہ تحت انکے لئے سالانہ ایوارڈ کا انعقاد ہونا چاہئے۔۔۔۔قلم کاروں کی خدمات کو بھی بھرپور طرح سے قومی سطح پر سراہا جانا چاہئے۔۔۔۔خوب سے خوب تر کی تلاش پر اکسانا چاہئے۔۔۔۔
ہم قلم کار معاشرے میں ایکتا اور سدھار کیلئے اپنے لہو سے تحریریں رقم کر رہے ہیں۔۔۔۔ہم بھی وہی سب کر رہے ہیں جو مذکورہ بالا ادارے کر رہے ہیں بس انکے کرنے میں اور ہمارے کرنے میں فرق اتنا ہے وہ بہت آسانیوں کہ ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں ۔۔۔۔جبکہ ہم قلم کار سیاہی کی جگہ اپنا لہو استعمال کر رہے ہیں۔۔۔۔” بس ہمارے عزم کا کوئی عنوان نہیں ہے “۔۔۔۔