کوئٹہ (جیوڈیسک) بلوچستان میں خوفناک زلزلے میں جاں بحق افراد کی تعداد چھ سو سے تجاوز کر گئی۔ ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ صرف آواران میں پانچ سو اکتیس افراد موت سے ہمکنار ہوئے۔ پانی اور کھانے پینے کی اشیا کی قلت ہو گئی۔
مشکے میں ملبے تلے دبے افراد کو ابھی تک نہیں نکالا جا سکا تاہم امدادی کام جاری ہے۔ وزیراعظم نے زلزلہ متاثرین کی امداد میں تاخیر کا نوٹس لے لیا۔ وزیراعظم نے فوج کو ناقابل رسائی علاقوں میں ہیلی کاپٹرز سے امداد پہنچانے کی ہدایت اور ہیلی کاپٹر کی تعداد مین بھی اضافہ کیا جائے۔
قیامت خیز زلزلے کے بعدآواران میں پانی اور کھانے پینے کی اشیا کی قلت اور مواصلاتی نظام برباد ہو کر رہ گیا ہے۔ مشکے میں ابھی تک کئی افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ مشکے، پیر اندراور منگولی میں چالیس ہزار افراد بے گھر ہو گئے۔ امدادی کارروائیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
خوفناک زلزلے نے آواران کے مکینوں کو دربدر اور مکانوں کو ملبے میں بدل دیا۔ بے سروسامانی کی حالت میں سیکڑوں زخمی طبی امداد کے منتظر ہیں صرف آواران میں پانچ سو اکتیس افراد جاں بحق ہوئے۔ پنجگور کے ایک مدرسے سے 20 بچوں کی لاشیں ملیں۔ ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت اجتماعی قبریں تیار کر رہے ہیں۔
ایک طرف تباہی و بربادی کا منظر ہے دوسری جانب آواران کے بے یاروگار مدد گار بچے چٹانوں جیسے عزم و ہمت کے ساتھ حصول علم کے لئے اسکول پہنچ گئے۔ زلزلے نے جاہو، کشکور، کولوہ، مالار اور خضدار میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی۔