ترقی کے لیے درست سمت کا تعین

Development

Development

تحریر : محمد آصف تبسم

جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے ہم ایک لفظ کی تکرار مسلسل دیکھتے ، پڑھتے اور سنتے چلے آئے ہیں وہ ہے ترقی ۔اس چار حرفی لفظ کے معنی تو پیش رفت کے ہیں لیکن ہم لوگ آج تک یہی اندازہ نہیں لگا پائے کہ یہ کس سمت میں ہے۔ ہم سنتے ہیں کہ فلاں ملک ترقی یافتہ ہے فلاں ترقی پذیر ۔ ہمارا ملک ترقی کر رہا ہے ہمارا ملک ترقی نہیں کر رہا۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم بحثیت انسان معاشرہ میں ترقی کر رہے ہیں تو اس کے لیے حال اور ماضی کا موازنہ کر لیتے ہیں بلکہ ایسا کر لیتے ہیں کہ اپنے والدین کی زندگی اور شب وروز کا موازنہ کر لیتے ہیں کہ آیا ہم ترقی کر رہے ہیں یا نہیں۔

پرانا زمانہ بھی کیا زمانہ تھا ، دن بھر کی محنت و مشقت کے باوجود لوگ راتوں کو گھنٹوں اکٹھے بیٹھ کر گپ شپ لگاتے تھے ، کہیں موسیقی سنی جاتی اور کہیں اشعار کی محفل سجتی ، کہیں ختم صلوات و قرآن ہوتا،کہیں قصے کہانیاں سنائی جاتیں ، کہیں رشتہ دار بیٹھ کر اپنے پرانے جھگڑے نمٹاتے اور کہیں بیٹھ کر نئے رشتے استوار کئے جاتے۔ محفل جو بھی ہوتی اور بزم جہاں بھی سجتی ، موسم گرمی کا ہوتا یا سردی کا اور رُت خوشی کی ہوتی یا غم کی، نشت وبرخاست کا لطف حالی، سعدی، شاہ عبدالطیف بھٹائی ، بلھے شاہ ، سلطان باہو، میاں محمد بخش اور وارث شاہ کے کلام سے ہی دوبالا ہوتا تھا۔ آہستہ آہستہ ہماری مجالس و محافل میں گلستان و بوستان ، کلام بلھے شاہ اور سیف الملوک کی جگہ کمپوٹر نے لے لی ۔ راتوں کی نشستیں سکڑنے لگیں اور لوگ خشک پتوں کی مانند بکھرتے چلے گئے ۔ پس یوں سمجھئے کہ انسان تنہا ہوتا گیا۔ اس کی محفلیں اجڑ گئیں اور غم خوار غمِ روزگار میں مشغول ہو گئے۔ انسان کی اس تنہائی نے ایک گلوبل ویلیج کو تشکیل دیا ۔ اس ویلیج میں انسان بظاہر تنہا ہے لیکن در حقیقت وہ ایک بہت بڑی بھیڑ اور ایک بہت بڑے ہجوم میں کھو گیا ہے۔ اس کے ہر طرف اور ہر لمحے نظریاتی جنگ ، نفسیاتی کشمکش ، احساساتی یلغار اور ہیجانی تصادم جاری ہے۔

آج کے انسان کی راتیں بظاہر پر سکون ہیں لیکن در حقیقت ان راتوں کے پردے میں افکار و عقائد کی ایک قیامت برپا ہے ۔ اس الیکٹرانک دنیا نے انسان کے احساسات و جذبات کو کچل کے رکھ دیا ہے ۔ انسان کو موجودہ آئی ٹی کے دور میں پھر ایسے ہی میاں محمد بخش اور وارث شاہ کی ضرورت ہے جو آئی ٹی میں جکڑے ہوئے انسان سے آئی ٹی کی زبان میں کلام کریں اور مشینی انسان کو وحشتوں سے نکال کر محبتوں کے درس پڑھائیں آج آئی ٹی کا گرم بازار کسی سعدی ، باہو اور عبدالطفیف کا منتظر ہے ۔ بازار گرم ہے اور انسان اداس ہے۔میں جب اپنے بچپن کے زمانے کو یاد کرتا ہوں تو اس زمانے کے لوگوں میں قناعت پسندی ، اطمینان اور صحت کے کم سے کم مسائل یاد آنے لگتے ہیں ۔ اس زمانے میں لوگوں کے پاس روپے پیسے کی ریل پیل نہیں تھی لیکن صبر اور شکر کی دولت انکے دلوں میں جمع رہتی تھی اس زمانے کے لوگ بہت صابر شاکر ہوا کرتے تھے ان میں دنیاوی لالچ کی ایسی بہتات نہیں تھی جو آج کے بے سکون زمانے میں ایک بیماری کی طرح پھیلی ہوئی ہے اور غریب تو غریب امیر لوگوں کو بھی مسلسل ڈپریشن میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔

ہمارے ماں باپ تو وہ خوش نصیب لوگ ہیں جنہوں نے مٹی کے گھروں میں بیٹھ کر راتوں کو پریوں کی کہانیاں ، شہزادیوں کے قصے سنے ہیں لیکن آج کنکریٹ کے جنگلوں میں کھوئے ہوئے خود کو ترقی یافتہ ترین ہستی سمجھنے والے حضرت انسان کی راتیں سوشل میڈیا پر مصروف گزرتی ہیں۔ہمارے والدین شائد وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نے اپنے دادا ،دادی کے بستر میں گھس کر ان کے بچپن کی باتیں بہت غور سے سنی تھیں آج کے ترقی یافتہ دور میں تو بوڑھوں کے پاس بیٹھے ہوئے بچوں کو جراثیم کا ڈر رہتا ہے ۔ہمارے بڑے تو اس لیے بھی خوش نصیب ہیں کہ انہوں نے محلے کے لڑکوں کے ساتھ مل کر پتنگیں اڑائی اور کٹی ہوئی پتنگوں کے پیچھے میلوں دوڑے ، مگر آج کے ترقی یافتہ جنریشن کی دوڑ یوٹیوب سے فیس بک اور ٹویٹر سے انسٹاگرام تک ہی رہ گئی ہے ۔

انہوں نے تو کئی بار اپنے پیاروں کے لیے ایسے احساسات کو خط میں لکھ کر بھیجا اور کئی کئی دن جواب کا انتظار کیا ۔ نہ ہی نیلے تیروں کی پریشانی اور نہ سین ایٹ کا جھنجٹ ۔۔۔!!وہ تو اس لیے بھی خوش نصیب ہیں کہ انہوں نے دیے کی روشنی میں کتابیں پڑھیں ، بیلوں کو ہل چلاتے ہوئے دیکھا مگر آج روشنیاں بھی ہیں کتابیں بھی ہیں پڑھنے والا کوئی نہیں ۔کھیت بھی ہیں کھلیان بھی ہیں دیکھنے والی مشتاق آنکھیں نہیں۔ انہوں نے تو اپنی دادیوں ،نانیوں کو اپنے سامنے لسی سے مکھن کے پیڑے نکالتے ہوئے دیکھا ۔اپنی آنکھوں کے سامنے گڑ بنتے ہوئے دیکھا مگر آج کے مشینی دور میں ہائی جین کے اصولوں کے عین مطابق تیار ہونے والی چیزوں کے باوجود ڈاکٹروں کے کلینکوں کی رونقیں دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ ہمارے ماں باپ شائد وہ آخری خوش نصیب لوگ ہیں جنہوں نے مٹی کے گھروں سے پانی پیااور عید کا چاند دیکھ کر تالیاں بجائیں اور دل ہی دل میں کچھ مانگ بھی لیا آج کل کے ترقی یافتہ دور میں تو عید کا چاند دیکھنے کے لیے آسمان کی طرف نہیں ٹی ۔وی سکرین کو دیکھا جاتا ہے۔وہ لوگ تو سکول میں سب سے پہلے باہر آجانے کو اپنی جیت تصور کرتے تھے ۔سکول کی بیل بجانا اپنے لیے باعث عزت سمجھتے تھے ۔ تب تو چھت پر سٹینڈ والے پنکھے کے سامنے چارپائی بچھانے پر لڑائی ہوتی تھی لیکن آج دروازے کھڑکیاں بند ACوالے کمرے میں بند انسان دوسرے کمرے میں بیٹھے انسان سے غافل ہے۔وہ خالص رشتوں کا دور تھا اب تو رشتے داروں سے مطلب رکھنے کا دور پرانا ہو گیا ہے اور ہم اتنے ترقی یافتہ ہو گئے ہیں کہ رشتے ہی ان سے رکھتے ہیں جن سے مطلب ہو۔۔۔۔۔!!!

اس ساری گفتگو کے بعد آپ سمجھیں گے کہ میں انسانیت کو ترقی کے اجالوں سے دور رکھنا چاہتا ہوں یا پھر انسانوں کو پتھر کے دور کی طرف لوٹانے کے حق میں ہوں ۔ میں تو بس یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ جب قرطبہ اور مدینہ کی یونیورسٹیاں علم کے چراغ یورپ سمیت دنیا میں بانٹ رہیں تھیں تب کون سی ویب سائٹس تھیں ۔جب طارق بن زیاد باطل کے خلاف سینہ سپر تھے تب سوشل میڈیا کی کون سی سائٹس تھیں جب البیرونی اور جابر بن حیان سائنس کی نئی نئی جہتیں متعارف کروا رہے تھے تب کون سے سرچ انجن استعمال ہو رہے تھے اور جب محمد بن قاسم اسلام کا پیغام گھر گھر پہنچا رہا تھا تب ٹویٹر پر اس کے کتنے فالور تھے ۔ساری گفتگو کا حاصل یہی ہے کہ ترقی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اپنی اقدار و روایات کو پس پشت ڈال کر ترقی یافتہ ہونے کی بھونڈی نقل اتاریں ۔ترقی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم اپنی جڑیں ہی کاٹ ڈالیں بلکہ ترقی تو یہ ہے کہ اُسی جڑ کے سہارے خود کو ایسا تنا ور درخت بنا لیں کہ آندھیاں بھی اسے ہلا نہ سکیں طوفان بھی اس کا کچھ بگاڑ نہ سکیں۔

Muhammad Asif Tabassum

Muhammad Asif Tabassum

تحریر : محمد آصف تبسم