تحریر : پروفیسر رفعت مظہر مودی اور یہودی ہاتھ ملتے رہ گئے اور اقتصادی راہداری پر ترقی کا پہیہ تیزی سے گھومنے لگا۔ چین کے وسط سے شروع ہونے والی شاہراہ کو اتنی رازداری کے ساتھ تعمیر کیا گیا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی۔ دونوں ملکوں (چین اور پاکستان) نے خاموشی سے اپنے اپنے حصے کی سڑک تعمیر کی۔ اِس اقتصادی راہداری کی تعمیر میں بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کبھی قدرتی آفات سد راہ ہوئیں تو کبھی پہاڑوں کی چوٹیاں سَر کرنی پڑیں لیکن راہداری کا ایک حصہ بن ہی گیا۔ سچ ہے کہ جب نیت صاف ہو تو رَب ِ لَم یزل بھی مدد کرتا ہے۔
ہمیں تو اچانک ہی پتہ چلا کہ میاں نواز شریف صاحب نقاب کشائی کے لیے بلوچستان جا رہے ہیں۔ وہ ”ٹریڈ کانوائے” کی افتتاہی تقریب سے خطاب بھی کریں گے اور نقاب کشائی بھی۔ ہم ابھی اِس پُرمسرت موقعے کی خوشی سے سرشار ہی تھے کہ بلوچستان میں شاہ نورانی کے دربار پر خودکش حملہ ہو گیااور پچاس سے زائد زائرین شہید کر دیے گئے۔ یہ بلوچستان کی سرزمین پر یکے بعد دیگرے ہونے والا تیسرا بڑا حملہ تھا، جس سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ اِن حملوں کے پیچھے ہمارے بَدترین پڑوسی، بھارت کا ہاتھ ہے جسے اقتصادی راہداری کسی بھی صورت میں ہضم نہیں ہو رہی۔ وہ پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کے لیے ایسے وحشیانہ اور بزدلانہ حملے کروا رہا ہے۔
Nawaz Sharif with General Raheel Sharif
کاشغر سے چین کا تجارتی سامان راہداری کے ذریعے گوادر پہنچا اور پھر کنٹینروں سے بھرا بحری جہاز مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی افریقہ کے لیے روانہ کر دیا گیا۔ اِس تقریب میں مولانا فضل الرحمٰن بھی چہچہاتے پھر رہے تھے اور ہر جگہ ”بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ” بنے ”ایویں خوامخواہ” آگے آگے تھے ۔ ایک دفعہ تو اُنہوں نے نقاب کشائی والی رَسّی بھی تھام لی لیکن اِس سے پہلے کہ وہ نقاب اٹھا بھی دیتے ایک لیگیئے نے جھٹکا دے کر مولانا کے ہاتھ سے رَسّی چھڑوائی ۔ شاید مولانا یہ سمجھتے ہوں کہ اِن کنٹینروں میں ”ڈیزل” ہے ۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ڈیزل کی ”خوشبو” سے مولانا مدہوش ہو جاتے ہیں ۔مولانا کی ایک خوبی تو تسلیم کرنی ہی پڑے گی کہ حکومت کسی کی بھی ہو ، مولانا اُس کا حصّہ ضرور ہوتے ہیں ۔ اُن کے پاس چند ہی اسمبلی ممبران ہوتے ہیں ،لیکن وہ اُنہی کے زور پر حکمرانوں سے کچھ نہ کچھ لے ہی اُڑتے ہیں ۔ میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف ”شریفین” نے مشترکہ طور پر نقاب کشائی کی ۔ بعدازاں وزیرِاعظم صاحب نے اپنے خطاب میں جنرل راحیل شریف کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ایف ڈبلیو او کی کاوشوں سے سڑکوں کا مضبوط نیٹ ورک وجود میں آگیا ہے ۔ اُنہوں نے ایف ڈبلیو او کے اُن چالیس نوجوانوں کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا جو اِس منصوبے کی تعمیر کے دَوران شہید ہوئے ۔ اقتصادی راہداری کی تعمیر کے بعد چین کا 12ہزار کلومیٹر کا سفر گھٹ کر صرف 3 ہزار کلومیٹر رہ گیا جس سے چین کو 20 کروڑ ڈالر روزانہ کی بچت ہو گی اور پاکستان کو پانچ ارب ڈالر سالانہ ملیں گے۔
ہمیں وہ وقت یاد آگیا جب پیپلز پارٹی کے دَور میں امریکہ نے پاکستان کے لیے ساڑھے سات ارب ڈالر امداد کا اعلان کیا جو پانچ سالوں میں ادا کی جانی تھی لیکن ساتھ ہی یہ پابندی بھی عائد کر دی گئی کہ یہ رقم دفاعی ضروریات کے لیے استعمال نہیں کی جا سکتی ۔ اِس شرط پر سیاسی و عسکری قیادت بے چین ہوئی ۔ اُنہی دنوں امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن پاکستان کے دورے پر آئی ۔ جب اُسے کہا گیا کہ ایسی پابندی پاکستان کو منظور نہیں ، تو اُس نے بڑی نخوت سے کہا کہ پاکستان اگر امداد نہیں لینا چاہتا تو نہ لے ، ہم کونسا اُسے زبردستی تھما رہے ہیں ۔ یہ بات ہیلری نے اُس وقت کہی جب نائن الیون کے بعد پاکستان افغانستان کی اندھی جنگ میں امریکہ کا اسٹریٹجک پارٹنر تھا ،اپنے ہزاروں شہری اور فوجی جوان شہید کروا چکا تھا ، اپنی معیشت کو اپنے ہی ہاتھوں عشروں پیچھے دھکیل چکا تھا اور لگ بھگ سو ارب ڈالر کا نقصان کروا چکا تھا۔ اب پاکستان کشکولِ گدائی توڑ کر اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا ہے اور اربوں کھربوں ڈالر اُس کے منتظر، جو امریکہ کو منظور ہے نہ بھارت کو ۔ امریکہ کو پاک چین دوستی ایک آنکھ نہیں بھاتی اور گوادر ہاتھ سے نکل جانے کا غم اُس کی تِلملاہٹوں کو مہمیز دے رہا ہے جبکہ بھارت کے پیٹ میں ہمہ وقت مروڑ اُٹھ رہے ہیں کیونکہ اُسے علاقے کا چودھری بننے کا خواب کرچی کرچی ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سرجیکل سٹرائیک کے ڈرامے کے بعد لائن آف کنٹرول پر متواتر چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے ۔ یہ بھارت کی پاکستان کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ ہے جس میں ایک طرف تو وہ اقتصادی راہداری کا غصّہ نکال رہا ہے جبکہ دوسری طرف اقوامِ عالم کی توجہ کشمیر سے ہٹانے کی سعی۔ اِس لیے ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم اپنے سارے اندرونی اختلافات بھلا کر مادرِوطن کے دفاع کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن جائیںلیکن ہمارے رہنماؤں کو تو صرف اقتدار کی ہوس ہے۔
Imran Khan
محترم عمران خاں اگر واقعی کرپشن کے خلاف جہاد پر نکلتے تو پوری قوم اُن کے دست وبازو بن جاتی لیکن وہ تو پاناما پیپرز کی آڑ میں اقتدار کے خواب سجائے بیٹھے ہیں۔ ہوسِ اقتدار نے اُنہیں اِس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ اب سفید جھوٹ بھی اُنہیں کھرا سچ دکھائی دینے لگا ہے۔ 2014ء کے ڈرامے کی طرح اب کی بار بھی اُنہوں نے بلند آہنگ سے کہا کہ اُن کے پاس میاں نواز شریف اور اُن کے خاندان کے خلاف ہزاروں ثبوت ہیں۔ اُنہوں نے بار بار یہ کہا کہ میاں صاحب استعفیٰ دیں یا تلاشی ۔ پھر معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا جس نے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا عندیہ دیتے ہوئے تحریکِ انصاف کو ثبوت جمع کروانے کا حکم دیا لیکن ”کھودا پہاڑ ، نکلا چوہا”،جو سینکڑوں کاغذات بطور ثبوت جمع کروائے گئے وہ یا تو اخباری تراشے تھے یا پھر اسد کھرل کی کتاب کے اقتباسات ۔ اِن ثبوتوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے ریمارکس تھے کہ یہ سب ردی کے ٹکڑے ہیں ، ثبوت نہیں۔ جج صاحبان نے کہا کہ اگر اخبار میں خبر آ جائے کہ اللہ دِتا نے اللہ رکھا کو قتل کر دیا تو کیا اللہ دتا کو پھانسی دے دی جائے؟۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ آج اخبار میں خبر آتی ہے کل اُسی اخبار میں پکوڑے بیچے جا رہے ہوتے ہیں۔
اگر ٹھوس ثبوت ہیں تو پیش کیے جائیں۔ پاناما پیپرز کے دوسرے مدعی شیخ رشید احمد تھے جنہوں نے عدالت کو مخاطب کرکے کہا کہ وہ خود اپنا کیس لڑیں گے کیونکہ وہ خود ہی لائر ہیں۔ چیف جسٹس صاحب نے مسکراتے ہوئے شیخ صاحب سے استفسار کیا کہ وہ لائیر(وکیل) ہیں یالائر (جھوٹا) ، جس پر کورٹ روم کشتِ زعفران بن گیا ۔ پھر چیف صاحب نے شیخ صاحب سے کہا کہ اگر وہ سیاست چھوڑ کر وکالت شروع کر دیں تو اچھے وکیل ثابت ہوںگے ۔ شیخ صاحب غالباََ چیف صاحب کے اِس طنز کو نہیں سمجھ سکے، اسی لیے کورٹ سے باہر نکل کر وہ بڑے فخر سے کہتے پھر رہے تھے کہ چیف جسٹس صاحب نے اُنہیں وکیل بننے کا مشورہ دیا۔ حرفِ آخر یہ کہ اگر میاں صاحب اور اُن کے خاندان پر کرپشن ثابت ہو جاتی ہے تو بَد بخت ترین ہو گا وہ جو اُن کی حمایت میں ایک لفظ بھی لکھے یا بولے گا لیکن کوئی کرپشن ثابت تو کرے۔