چین کی حیرت انگیز ترقی، نسلی امتیاز کے عفریت اور تجارتی حجم میں کمی نے امریکی حاکمیت کو بری طرح سے مسخ کیا ہے۔حالیہ الیکشن میں امریکی قوم دو انتہائوں میںبٹ چکی تھی جس کا مظاہرہ کیپیٹل ہل میں خونی بلوہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ اگرچہ ڈولنڈ ٹرمپ مواخذہ کی تحریک سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گے ہیں لیکن انھوں نیامریکہ کے چہرے پر جو کالک مل دی ہے اسے صاف کرنے میں کئی عشرے درکار ہوں گے۔نسلی امتیاز کی جس لہر کو ابھارا گیا تھا وہ انتہائی خطرناک تھی ۔گورے اور کالے میں اختلاف کی جو خلیج پاٹی گئی تھی وہ تباہ کن تھی ۔نسلی امتیاز قوموں کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دیتا ہے لہذا بڑا لیڈر وہی ہوتا ہے جو سب کو ایک ہی آنکھ سے دیکھے ۔بڑے قائد کی نظر میں کوئی ادنی و اعلی نہیں ہوتا بلکہ قوم کا ہر فر د انتہائی اہم ہو تا ہے(ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا ) کا نعرہ ہی اقوام کی تکریم اور عظمت کی بنیاد ہو تا ہے ۔ ڈولنڈ ٹرمپ نے اپنی متعصبانہ پالیسیوں سے اپنے اتحادیوں کے جذبات و احساس کو جس بری طرح سے مجروح کیا تھااور عوامی مینڈیٹ کو جس بری طرح سے دنیا کے سامنے رسوا کیا تھا اس پر نظر ثانی انتہائی ضروری تھی۔
ایک زمانہ تھا کہ سائوتھ افریکہ میں بھی نسلی امتیاز ڈیرے ڈالے ہوئے تھا ۔اقتدار اقلیت کے ہاتھوں میں مرتکز تھا اور اکثریت اقلیت کے رحم وکرم پر تھی۔ کالے اور گورے کی جنگ نے ملک کو لہو لہان کر دیا تھا۔نیلسن منڈیلا نے نسلی امتیاز کے مکروہ بت کی بجائے تکریمِ انسانی کا علم بلند کیا ۔ ٢٨ سال جیلوں کی نذر کرنے کے باوجود ان کی سوچ میں تلخی نہیں تھی، انتقام اور بدلے کی بھاونا نہیں تھی ۔وہ سائوتھ افریکہ کو کالے اور گورے کی گروہ بندی کے جھنجھٹ سے بچانا چاہتے تھے ۔انھیں خبر تھی کہ ان کی انتخابی فتح کے بعد کالوں نے گوری نسل کے قتلِ عام کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے ۔کئی عشروں کے ظلم و ستم کا حساب چکانے کا شائد عوام کو اس سے نادر موقعہ پھر ہاتھ نہیں آ سکتا تھا۔وہ جھنوں نے جبر کو جنم دیا تھا آج ان سے حساب چکتا کرنے کا نادر لمحہ آن پہنچا تھا۔نیلسن منڈیلا اس ساری صورتِ حال سے آگاہ تھے لہذاا نھوں نے حکم جاری کر دیا کہ سائوتھ افریکہ میں مقیم ہر گورے کی حفاظت کی ذمہ داری کالی نسل کے افراد پر عائد ہو تی ہے۔گوروں کو حصار ملے گا لیکن کالوں کے ہاتھوں سے ۔گوروں کی زندگی کی حفاظت کی ذمے داری جب کالی نسل کے کندھوں پر رکھ دی گئی تو پھر سائوتھ افریکہ میں خون کی ایک بوند نہ بہی۔ گوروں کی طرف کسی نے میلی آنکھ سے نہ دیکھا اور یوں بھائی چارے اور یگانگت کی فضا نے انتقامی سوچ کو نگل لیا ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گوری اشرافیہ کالوں کی خوشیوں کی قاتل تھی ،ان کی تباہی و بربادی کی مجرم تھی لیکن انتقام سے سارا کھیل بگڑ سکتا تھا ۔ انتقام ایک ایسی آگ ہے جو سب کچھ بھسم کر دیتی ہے اور ہر شہ اس کے شعلوں میں جل کر راکھ ہو جاتی ہے ۔ نیلسن منڈیلا کا حکم تھا کہ انھیں نسلی امتیاز سے جنم لینے والے کسی ایک واقعہ کی شکائت نہیں آنی چائیے۔اب وہی ملک تھا،وہی لوگ تھے لیکن قائد بدل چکا تھا۔قومیں ایسے ہی نہیں بنتیں۔انھیں عفو در گزر سے بنایا جا تا ہے ، گنہگاروں کو سینے سے لگانے سے بنایا جاتا ہے، برداشت اور معافی کے خزانوں کو لٹانے سے بنایا جاتا ہے۔اب کوئی کسی کا عدو نہیں تھا،اب کوئی کسی کا حریف نہیں تھا، اب کوئی کسی کا قاتل نہیں تھا،اب کوئی کسی کا دشمن نہیں تھا۔سب تسبیح کے دانوں کی طرح ایک ہی لڑی میں سجا دئے گے تھے ۔ اب کوئی کالا اور گورا نہیں تھا بلکہ ہر کوئی سائوتھ افریکن تھا۔رنگ و نسل کی ہر دیوار گرا دی گئی تھی۔ناممکن کو ممکن بنا دیا گیاتھا۔بڑے قائد کا کمال یہی ہو تا ہے کہ وہ محیرالعقول فیصلے کرتا ہے ۔ بکھری ہوئی ٹہنیوں کا اکٹھا کر کے گٹھہ بنا تا ہے اور پھر اقوامِ عالم سے اس گٹھہ کو توڑ دینے کا چیلنج دیتا ہے۔کیا کسی کیلئے ممکن ہو تا ہے کہ وہ اتحاد کے گٹھہ کو توڑ سکے؟ حجتہ الوداع کے تاریخی لمحوں میں سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفے ۖ کے تاریخی الفاظ میرے کانوں میں رس گول رہے ہیں( کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی برتری نہیں ہے۔تم سب ایک آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے)۔علامہ اقبا ل نے اسی فلسفہ کو اپنے اپنی شعرہ آفاق کتاب (جاوید نامہ)میں انتہائی اچھوتے انداز میں پیش کیا تھا ۔ (احمراں بہ اسوداں امیختند )ترجمہ۔ میرے آقا ۖ نے گوروں اور کالوں کو ایک صف میں کھڑا کر دیا تھا۔،۔
امریکہ اس وقت دو راہے پر کھڑا ہے۔ڈولنڈ ٹرمپ نے اپنے حمائیتیوں کو جس طرح کیپیٹل ہل پر حملہ کیلئے اکسایا تھا اس نے امریکی قوم کو منقسم کر کے رکھ دیا ہے۔اس وقت نفرت کی یہ چنگاریاں وقتی ہنگام میں دب کر رہ گئی ہیں لیکن وہ وقت دور نہیں جب یہی چنگاریاں دہکتے ہوئے آلائو میں بدل جائیں گی۔لیڈر شپ کے لئے یہ وقت امتحان کا وقت ہے اسے بڑی دور اندیشی سے فیصلے کرنے ہوں گے۔سب کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔امریکہ کی بقا اور عظمت اس بات میں مضمر ہے کہ اس کے ہاں نسل پرستی کے جس زہر کی آبیاری کی گئی ہے اس سے قوم کونجات دلائی جائے۔ڈو لنڈ ٹرمپ نے ذاتی اقتدار کی خاطر جس طرح کیپیٹل ہل کو میدانِ جنگ بنا دیا تھا قوم کو اس کے مہلک وار سے بچانے کی سعی کرنی ہو گی کیونکہ امریکی امن سے دنیا کا امن جڑا ہوا ہے۔اگر مفاہمت اور درگزر سے کام نہ لیا گیا تو پھر امریکی انتشار کو روکنا ممکن نہیں رہے گا۔جو بائیڈن ایک انتہائی منجھے ہوئے سیاست دان ہیں،ان کی زندگی مشاہدات و واقعات سے بھری پڑی ہے،انھو ں نے گرم سرد موسم دیکھ رکھے ہیں ،وہ ٹھنڈے دل و دماغ کے حامل سیاستدان ہیں لہذا ان سے سنسنی خیزی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ان کے ابتدائی ایام کے چند فیصلے ان کے بڑے پن کا کھلا اظہار ہیں۔،۔
اگر ہم اس وقت پاکستانی سیاست کو دیکھیں تو ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے۔قوم بری طرح سے منقسم ہے ،معیشت کا برا حال ہے جبکہ قرضوں نے قوم کوآدھ موا کر رکھا ہے۔ ایک جنگی کیفیت ہے جس میں اپوزیشن حکومت کو حکومت اپوزیشن کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ عوام مفاہمت اور در گزر جیسی نایاب شہ کو دیکھنے سے محروم ہیں۔پارلیمنٹ مچھلی بازار بنی ہو ئی ہے۔سر پھٹول اور زدو کوب کے مناظر دل کو دہلا رہے ہیں ۔قانون سازی کا نام و نشاں نہیں ہے۔لانگ مارچ کے اعلان نے ریاست کی چولیں ہلا دی ہیں ۔اہلِ علم سمجھتے ہیں کہ لانگ مارچ کے مہلک اثرات اس قوم کو مزید انتشار کے حوالے کر دیں گے۔اس وقت حکومتی ترجمانوں کو وہ کچھ نظر نہیں آ رہا جو لانگ مارچ کے بعد ہونے والا ہے۔احتساب کی آڑ میں اپوزیشن کو جس طرح رسوا کیا جا رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ سیاست کا بازار تو سداآباد ہی رہنا ہے لیکن اس وقت جو چیز سب سے مقدم ہے وہ قومی یکجہتی۔ہے کوئی جو قومی یکجہتی کا پرچارک ہو ؟ ہے کوئی جو قومی وحدت کا علمبردار ہو ؟ ہر لیڈر علیحدہ سے اپنی ڈفلی بجا رہا ہے۔اقتدار کی ہوس نے ہر ایک کو اندھا کر رکھا ہے ۔ ہمارا ازلی دشمن کھلی آنکھوں سے ہماری بے حمیتی کا تماشہ دیکھ رہا ہے۔قائدین باہم دست و گریبان ہو کر اقوامِ عالم کے لئے تماشہ بنے ہو ئے ہیں ۔ ایک دوسرے کو گرانا اور رسوا کرنا شائد ان کا مقصدِ زندگی قرار پاچکا ہے۔اے میرے چارو گرو کسی وقت ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا کہ قومیں سر پھٹول سے نہیں بلکہ تعلیم ، امن ، انصاف ،سچائی ،دیانت ،احتساب اور جوابدہی سے بلند یوں سے ہمکنار ہو تی ہیں ۔ پاکستانی قوم اپنی بے پناہ خوبیوں کی بدولت بلندیوں کا سفر طے کر سکتی ہیں بشرطیکہ اسے باہمی جنگ و جدل کی بجائے انصاف، قانون، یگانگت اور مفاہمت کا ماحول عطا کیا جائے۔،۔
Tariq Hussain Butt
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال۔۔