تحریر : شیخ خالد ذاہد ہر صبح قدرت انسان کو یہ پیغام دیتی ہے کہ دیکھ تیرے لئے ایک اور دن فراہم کردیا گیا ہے اور وقت کی قلت کے پچھتاوے جو تو رات ساتھ لے کرسوگیا تھا اور تجھے یہ یقین بھی نہیں تھا کہ اگلے دن کا سورج دیکھنے کیلئے تو اٹھے گا بھی یا نہیں۔ آج پھر سورج اپنی بھر پور توانائی لئے تیرے لئے نئی سوچ اور نیا ولولہ پیدا کرے گا، گزری ہوئی شام کو جب یہ سورج غروب ہو رہا تھا کتنا نڈھال تھا کتنا بے حال لگ رہا تھا اور آہستہ آہستہ اسکی روشنی معدوم ہوتی چلی گئی تھی یہاں تک کہ اندھیرا سارے ماحول پر غالب آگیا تھا۔ سورج کی اس کیفیت کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ یہ اپنی گراں قدر خدمات کے باوجود لوگوں سے کچھ اچھا یا بہت اچھا کروانے سے قاصر رہا ہے جس کی بدولت شام کہ وقت سورج کا حال ایسا دیکھائی دے رہا تھا۔ مگر وہ اپنی نئی جستجو لئے پھر حاضر ہوچکا تھا اب ہماری باری ہے کہ آج کی شام کیلئے پچھتاوے اکھٹے کریں یا پھر کچھ نا کچھ تخلیقی عمل سے قدرت کی شکرگزاری کریں اور کم از کم لائن میں تو لگ ہی جائیں۔
دنیا میں ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کو ترقی کسی نے تحفے میں نہیں دی اور نا ہی ترقی کہیں قبضہ کرنے سے مل سکتی ہے۔ اگر ایسا کچھ بھی ممکن ہوتا تو آج بہت ساری ایسی مثالیں موجود ہیں جن کی بدولت یہ جاننا آسان ہوسکتا ہے کہ ترقی کیلئے قبصے کر لئے جائیں یا پھر لائن میں لگا جائے۔ ترقی کرنے کیلئے تعلیم اور دولت کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا تو دوسری طرف افرادی قوت کا حصہ کہیں گنا زیادہ اہم مقام رکھتا ہے۔ ہم ترقی کرنے سے پہلے تھوڑا سا اپنے معاشرے کا یا اپنا اپنا محاسبہ کرتے چلتے ہیں۔تاوقتے ہمیں (خصوصاًکراچی والوں کو) کچرے کا بحران بہت بری طرح سےگھیرے ہوئے ہے جگہ جگہ کچرا ہی کچرا نظر آرہا ہے۔ مگر ایسا نہیں کہ کچرا اٹھایا نہیں جا رہا، کچرا اٹھایا بھی جا رہا ہے جہاں سے بلکل کچرا اٹھالیا جاتا ہے دوسرے تیسرے دن پھر ویسا ہی کچرے کا ڈھیر بننا شروع ہوجاتا ہے۔ اب اس صورتحال سے نکالنے کی کوشش ہمارے ادارے کرتے نظر آرہے ہیں مگر کیا ہم انکی مدد کر رہے ہیں؟ یقیناً نہیں! بغیر ہماری مدد کہ یہ مسلئہ حل نہیں ہوسکتا کیونکہ کچرے کو اسکی مخصوص جگہ پر نہیں پھینکا جاتا جس کا جہاں دل چاہتا ہے وہ اچھال دیتا ہے۔
ایک طرف ترقی کی راہ پرگامزن ہونے کی کوشش کی جارہی ہے مگر دوسری طرف سے ساتھ نہیں دیا جا رہا جسکے بغیر ترقی ممکن ہی نہیں (محبت ایک طرفہ ہو تو سزا دیتی ہے)۔ ترقی کیلئے سب کو مل کر ایک سمت میں کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ایک پانی کی تقسیم کا مسلئہ سال ہا سال سے چلا آرہا ہے ، ادارے آج تک پانی کی تقسیم کا کوئی واضح عملی پروگرام مرتب نہیں دے سکے ہیں اور اگر کوئی منصوبہ بندی کی بھی گئی ہے تو وہ یقیناً کاغذوں تک محدود ہے اور عملی طور پر نظر نہیں آتی۔ کچھ سال پہلے ہمارے شہر کی سڑکوں کو “گرین بسوں” نے رونق بخشی تھی، یہ کراچی کی تاریخ کی بہترین بس سروس تھی یہ ناصرف شہریوں کو سفری سہولت فراہم کر رہی تھی بلکہ بہت پرسکون سفر فراہم کر رہی تھیں کیونکہ یہ ساری بسیں “ائیر کنڈشنڈ” تھیں۔ ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ پہلے پان اور گٹکے کی پیکوں سے انتہائی خوبصورت بسوں کی حالت رنگ برنگی کردی تو دوسری طرف جب کوئی ہلا گلا ہوا تو ان گاڑیوں کو کسی کوڑے یا کچرے کی مانند نظرِ آتش کرتے چلے گئے۔ ہماری اہم ترین شاہراہ بھی آجکل “الیکشنیاتی” معاف کیجئے گا ترقیاتی کاموں کی ذد میں ہے، بڑی بڑی پریشانیوں پر اف نا کرنے والی قوم اس چھوٹی سی پریشانی کو بھی ہنسی خوشی جھیل گئی سڑک تعمیر کے آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے مگر اس پر تقسیم کی لائنیں نہیں لگائی گئی ہیں جو اس بات کی گواہی ہے کہ ہمیں لائنوں سے کس قدر نفرت ہے۔
ہم اسطرح اپنی بہت ساری سہولیات سے باآسانی جان چھڑا چکے ہیں اور اپنے آپ کو مشکلات کی دلدل میں دھنساتے چلے آئیں ہیں۔ اس طرح بہت ہی قلیل وقت میں کراچی کی سڑکیں گرین بسوں کی جھنجھٹ سے آذاد ہوگئیں۔ ایسے اور بہت سارے منصوبے ہیں جنہیں ہم نے اپنے ہاتھوں سے برباد کیا ہے اور جنہیں سوچ ہمارے دل کو تکلیف ہوتی ہے۔ہم صرف ترقی کو نام سے جانتے ہیں اور ٹیلی میڈیا پر دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ ہم سب چاہے ہماری حیثیت کیسی بھی ہو مگر اپنے آپ کو بہت اہم سمجھتے ہیں اور اہمیت کا تکازہ بھی کرتے نظر آتے ہیں مگر افسوس ہمارے ملک میں اہم ہونے کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ آپ کسی بھی قسم کی لائن میں لگنے سے مبرا ہیں۔ اب خود فیصلہ کرلیں جب تک کسی لائن میں ترتیب نہیں ہوگی جب کوئی صاحبِ حیثیت (اہم) لائن کی زینت بننے کو تیار ہی نہیں تو پھر ترقی کی لائن آگے کیسے بڑھے گی۔ ہم سب ایک دوسرے پر تنقید اور انگلی اٹھاتے تھکتے نہیں ہیں، نصحیتوں کی ہمارے پاس کوئی کمی ہی نہیں ہے کمی ہے تو صرف عمل کرنے کی کمی ہے تو صرف خود احتسابی کی ہم ڈولڈ ٹرمپ اور پیوٹن پر تجزئے اور تبصرے کرتے ہوئے یہ بھی یاد نہیں رکھتے کہ جس چبوترے پر ہم بیٹھے ہیں یہ بھی کسی اور کہ گھر کے ساتھ ہے اور وہ ابھی ہمیں یہاں سے اٹھنے کیلئے کہہ دے گا۔
ہمیں اگر ترقی کرنی ہے تو اپنی تہذیب و تمدن کے بل بوتے پر کاربند ہونا پڑے گا، اپنے قومی تشخص کو بڑھاوا دینا پڑیگا، اپنی قومی زبان دنیا کہ منہ میں دینی پڑے گی۔ ہمیں اندھی تقلید سے گریز کرنا ہوگا، ہمیں دنیا سے “ڈکٹیشن” لینا بند کرنا پڑے گا، اپنے “تھنک ٹینک” تیار کرنا پڑینگے، ٹریفیک سگنل کو اہمیت دینا ہوگی اور سب سے بڑھ کر لائن میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑے گا۔ترقی ہمارے اعمال میں پوشیدہ ہے اپنے اعمال سدھار لیجئے ترقی کی شاہراہ خود بخود ہمارے قدموں میں ہوگی۔