تحریر : شیخ خالد زاہد انسانی ترقی میں اسکے ذہن اور دلکی زرخیزی کا بہت عمل دخل ہے۔ اگر اس زرخیزی سے مراد کچھ سمجھایا جائے اور محسوس کرنے کی بات ہو تو دونوں صورتوں میں کچھ نا کچھ حاصل جمع ہوجائے گا۔ اب اگر انبیاء کرام کی محنت پر نظر ڈالیں تو یہ بات بہت واضح ہوجاتی ہے کہ ایسی زرخیزی قدرت مخصوص لوگوں کوہی عنایت کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ چند لوگ ہی یا مخصوص لوگ ہی دنیا کے کینوس پر اپنے آپ کو منور کرواسکے اور ایسے راستے نکالے جن پر آج تک دنیا گامزن ہے۔ علم کا حصول ہی دنیا اور آخرت میںآسانی کا باعث بنا ہے اور آسان اور صحیح راہیں چنے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔
پہلے علم سفر کرنے سے حاصل ہوتا تھا، علم بیٹھکوں میں بٹتا تھا، علم بزرگوں کی ڈانٹ ڈپٹ اور مار میں تھا ، علم سردیوں کی دھوپ اورنیم کے درخت کی چھاؤں میں تھا، علم پریشانی و پشیمانی میں تھا، علم بارش کی بوندوں اور مٹی کی خوشبو میں تھابس یوں سمجھ لیجئے علم والوں کیلئے انکی زندگی کے ہر گزرتے لمحے میں علم ہی علم تھا، چلتے جاتے تھے اور ہر ہر قدم سے علم سیکھتے جاتے تھے، محد سے لیکر لحد تک کا تمام سفر علم کے حصول کیلئے ہی کیا جاتا تھا۔ باقی تمام امور زندگی کی اہمیت واجبی ہوا کرتی تھی۔ زندگی کی اہمیت کو اسلئے اہم سمجھا جاتا تھا کہ اسی کی بدولت علم سے شناسائی ہوتی تھی۔ اب جبکہ علم کی اہمیت سوائے دنیا کمانے کے اور کچھ بھی نہیں رہی تو زندگی بھی اپنی اہمیت کھو چکی ہے۔
مصطفی کمال محمود حسین المعروف مصطفی محمود مصرسے تعلق رکھنے والی ایک نامی گرامی شخصیت ہیں ، علم کے فروغ کیلئے آپکی گرانقدر خدمات ہیں، فلحال ان سے اتنا ہی تعارف کروانا تھا جسکی وجہ انکی ایک انتہائی مختصر مگر پر اثر تحریر اپنے معززقارئین کی نظر کرنی ہے جوکہ یہ ہے اگر مومن اور کافر سمند ر میں اتر جائیں تو صرف وہی بچے گا جسے تیرنا آتا ہوگا، خدا جاہلوں کی طرفداری نہیں کرتا۔ چنانچہ جاہل مسلمان ڈوب جائے گا اور کافر عالم جیت جائے گا۔ اسلام کی تو بنیاد ہی علم سے ڈالی گئی جب پیغمبر اسلام محمد مصطفی ﷺ پر جبرائیل امین پہلی وحی لیکر آئے اور فرمایا کہ اقراء یعنی پڑھ ، یہ اسلام کی ابتداء تھی یا دنیا میں علم کی روشنی کے چراغوں کے جلنے کی ابتداء تھی یا پھر دونوں کی۔اسلام نے انسانیت کیلئے راستہ متعین کردیا یعنی جو علم حاصل کریگا فلاح اسکے لئے ہے ۔ اسلام نے اپنا نافذ کردہ ہر فیصلہ ہر طرح سے ثابت کیا ہے اور کرتا ہی چلا جا رہا ہے ۔ اسلام سے وابستگی کیلئے اللہ رب العزت نے واضح کردیا کہ علم اسلام کی بنیادی ضرورت ہے۔
اسلام کے ظہور سے لیکر خلافت کے خاتمے تک مسلمانوں نے دنیا کو ناصرف نظم و ضبط سکھایا بلکہ علم کی اہمیت و افادیت سے بھی روشناس کروایا۔ دنیا کو سمجھ آگئی کہ علم کی دولت سے مالا مال ہوکر ہی زمین میں پوشیدہ خزانوں تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے اور دنیا پر حکمرانی کیسے کی جاسکتی ہے۔ مسلمانوں کو تیار شدہ (ریڈی میڈ) کا عادی بنا دیا، ہر چیز بنی بنائی فراہم کی جانے لگی اور آسائشوں کے جال میں پھنستے چلے گئے۔ ایسی ہی وجوہات کی بدولت علم سے دور ہوتے چلے گئے اور جو کوئی علم حاصل کر بھی رہا تھا اسکا خالص مقصد دنیا کمانا تھا۔ مغرب اور مشرق کا جو فرق صدیوں سے قائم تھا آہستہ آھستہ ختم ہوتا چلا گیا۔ مسلمان زبوں حالی کا شکار ہونا شروع ہوئے، دنیا نے اپنے وہ تمام مقاصد آج بہت خوبی اور آسانی سے حاصل کرلئے ہیں جس کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے ان کا اس بات کو سمجھ لینا کہ علم کے بغیر زندگی نامکمل ہے، شائد انہیں قرآن اور احادیث کی دیگر اور بہت ساری وہ باتیں جنہیں وہ سمجھ کر ان پر عمل کر کے یہاں تک پہنچے ہیں، ہمارے نبی ﷺ کی اس بات کی کھوچ کی ہوگی کہ علم حاصل کرو چاہے تمھیں چین ہی کیوں نا جانا پڑے۔ مغرب نے تعلیم کے حصول کیلئے ایسے ایسے تعلیمی ادارے بنائے جہاں ساری دنیا سے لوگ پڑھنے آتے ہیں اور کتنے اس حسرت کو دل میں ہی رکھ کر دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے اور سمجھانے کی صلاحیت سے عاری مسلمان اپنی تاریخ پر نازاں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ۲۱ ویں صدی میں داخل ہوگئے ہیں۔
اب ہم اپنے ملکِ خداد پاکستان کی کچھ بات کرلیتے ہیں جہاں تعلیمی اداروں کی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے جی ہاں مجھے کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے کہ تعلیم بھی کسی پرچون کی دکان میں رکھی ہوئی روزمرہ کی استعمال میں رکھی ہوئی چیز کی طرح ہی دی جا رہی ہے ۔ ہمارے مزاج کے عین مطابق جتنا مہنگا تعلیمی ادارہ ہوگا اتنا ہی اچھا جانا جائے گا۔ اس بات سے قطع نظر کہ وہ ادارہ تعلیم بھی دے رہا ہے یانہیں، یا صرف دنیا دیکھاوے میں ہی اپنی اور اپے ادارے میں آنے والے بچوں کی رہنمائی کر رہا ہے۔ یہ سب تو اس ملک کے اس طبقے کیلئے ہے جو یہ سب برداشت کر سکتا ہے کیونکہ سرکاری اسکولوں میں تو زمانے ہوئے تعلیم اٹھ چکی ہے اب تو صرف وہاں پر کام کرنے والا عملہ سرکاری مراعات کی آس و پیاس میں اپنا وقت گزارنے چلے آتے ہیں۔ ان بچوں کیلئے کوچنگ سینٹرز والوں نے اپنا جال بچھایا ہوا ہے۔ ہر طرف کاروبار ہی کاروبار ہے۔
اسلام کو ماننے والے اور اسلام کے نفاذ کیلئے کام کرنے والوں کیلئے سب سے ضروری بات ہی یہی ہے کہ علم کی رغبت عام کریں علم سے محبت کا درس عام کریں اور علم کو عام کرنے میں اپنا قلیدی کردار ادا کریں۔ کیوں کہ یہ بات واضح کر دی جا چکی ہے کہ اللہ جاہلوں کی طرف داری نہیں کرتا۔