تحریر : نجم الثاقب پاکستان اور چین کے عوام اس دوستی کا ہمہ وقت دم بھرتے ہیں ہمیں یہ فخر ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی ہمالیہ سے بلند اور بحر اہلکال سے گہری ہے۔ جغرافیائی طور پر چین پاکستان کا واحد ہمسایہ جس کی سرحد یں ہر قسم کی شر انگیزی، دہشت گردی اور انتہا پسندی سے محفوظ ہے۔ چین نے پاکستان کا ہر مشکل گھڑی میں ساتھ دیا ہے زلزے ، طوفان، بھارت کا جنگی جنون، دہشت گردی سمیت دکھ و تکلیف میں کبھی بھی پاکستان حکومت کے ساتھ نہیں چھوڑا۔ پاکستان اور چین دفاعی، اقتصادی اور معاشی طور پر ایک دوسرے کے بڑے اتحادی ہیں۔ چین کی خواہش ہے کہ وہ اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات رکھے اس لئے اس بناء پر اس پورے خطے میں پاکستان کے ساتھ لمبے عرصے سے اہم روابط قائم ہیں اس لئے چین پاکستان کو ترقی کی بلندیوں پر دیکھنا چاہتا ہے چین نے 2006 میں اقتصادی راہداری پلان پر کام شروع کیا ، چین کی کاوشوں کا نتیجہ یہ ہے کہ گوادر اقتصادی حب، سینٹر کور پوائنٹ قرار پایا۔ چین سینٹرل ایشیاء سے آبی راستے کے ذریعے اپنی برآمدات و درآمدات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے جس پر کثیر اخراجات کے ساتھ 10,000 ہزار کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ طہ کرتا ہے ۔ گوادر روٹ راہداری منصوبے سے آبی راستے کی ضرورت تقریبا ختم ہو جائے گئے اور چینی اکنامک گروتھ کاشعبہ فروغ پائے گا۔ گوادر کی ڈویلپمنٹ کے ساتھ پاکستان کوبے پناہ فوائد حاصل ہونگے یہ راہداری منصوبے تاریخی ترقی و خوشحالی کا سنہری دور ثابت ہو گا۔ چین ا ور پاکستان کی لازوال 65سالہ دوستی کے درمیان51 ارب ڈالر کا یہ اقتصادی منصوبہ ایک عظیم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، سی پیک کی تمام سرمایہ کاری چین کے بینکوں کے ذریعے تاریخی شرح سود کی کم ترین سطح پر 1.6 فیصدہو گی ۔ تمام صوبوں کے لئے ڈو یلپمنٹ کے بڑے وسیع و عریض پروجیکٹ کا قیام بھی اس منصوبے کا حصہ ہیں ۔ بلوچستان میں گوادر شہر کو مکمل طور پر ماڈرن طور پر استوار کر کے ماڈل اسٹماٹ کا درجہ دیا گیا ہے ، گوادر کی تعمیر پر تقریبا ایک سے چار ارب مختلف مد میں خرچ ہوگا۔
پاور سیکٹر میں حب کول پا ور پلانٹ جس سے تقریبا 1100 سو میگا واٹ سے زیادہ بجلی کی پیداوارعمل میں لائی جائے گی۔ ہائی وے (خضدار سے وسیما ہائی وے ۔ ڈی آئی خان سے کوئٹہ ) دو بڑے پروجیکٹ کے ساتھ کئی لنک سڑکیں کو شامل کیا گیا ہے۔ گوادر میں فری ٹریڈ زون، اکنامک زون، کوسٹل ہائی وے کے ساتھ بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی تعمیر کے مراحل میں ہے۔گوادر پورٹ دنیا کی تیسری گہری ترین بندگاہ ہے جہاں سے دنیا میں بڑے پیمانے پر تیل سپلائی کرنے والی لائن آبنائے ہرمز گزرتی ہے ۔ یہ بندرگاہ پورے سینٹرل ایشاء کے ممالک چین، روس، ایران کے لئے بہت ہی موثر ہے۔ روس کی بندرگاہیں سردیوں کے موسم میں برف باری کے باعث کام بند کردیتی ہیں ، روس بھی سی پیک کے ذریعے فوائد حاصل کر سکتا ہے ۔ سی پیک اس پورے خطے میں پھیلتی کامیابی کو دیکھ کر ایران بھی اس منصوبہ سے مستفید ہونے کی درخواست کر چکا ہے۔ ایران جانتا ہے جب تک امریکہ کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہیں ہوتے ایران گیس پائپ لائن فارمولہ موثر ہونا مشکل ہے۔ سی پیک کوری ڈور کی بدولت ایرانی گیس کا یہ ا لتوا منصوبہ کو تقویت ملے گی۔ صوبہ خیبر پختون خواہ میں سی پیک کے حوالے سے جو منصوبہ رکھے گئے ان میں حویلیاں کے مقام پر ڈرائی پورٹ کا قیام ، سوکھی کناری میں ہائی ڈرو پارو پروجیکٹ کے ساتھ موٹروے ، ہائی وے کی تعمیر و کشادگی کے منصوبے ( شاہراہ قراقرم ، حویلیاں سے ٹھکور ، رائے کوٹ سے ٹھکور، ڈی آئی خان سے کوئٹہ)، کراچی سے پشاور میں ریلوے لائنز ٹریک کی تعمیرکا ایک بڑا منصوبہ بھی سی پیک میں شامل ہیں۔ صوبہ سندھ کے اندر سی پیک کے حوالے سے بڑے وسیع منصوبوں بنائے گئے جن میں سرفہرست بجلی کی نئی ٹرانسمیشن لائز کا قیام جن میں مٹیاری سے لاہور۔ مٹیاری سے فیصل آبادشامل ہیں ۔ انرجی سیکٹر کے اندر بڑے منصوبوں کا پلان ترتیب دیا گیا جن میں کوٹ قاسم پاور پلانٹ ، اینگروتھر پارکر، تھرپارکر بلاک پروجیکٹ، داؤد ونڈ فارم، جیم پور ونڈ فارم، سچل ونڈ فارم، چین سینک ونڈ فارم شامل ہیں۔ ٹرانسپوٹیشن کی مد میں موٹر وے (کراچی سے لاہور) کی ایکسٹینشن کو اس کا حصہ بنایا گیا ہے۔ صوبہ پنجاب میں ساہیوال کول پاور پلانٹ، رحیم یارخان پاور پلانٹ، ہائی ڈو پاور پلانٹ، قائد اعظم سولر پارک بہاولپور، فائی بر کیبل راولپنڈی سے خنجراب، دو ا کنامک زون کا قیام، موٹر وے( سکھر سے ملتان) ، روٹ ایکسٹینشن موٹروے کے منصوبے شامل ہیں۔
سی پیک منصوبہ کا 60% فیصد انرجی کے شعبوں کی مد پر خرچ ہو گا ان میں کوئل ، فرنس آئل، ہوا وشمسی کے منصوبوں شامل ہیں جن سے تقریبا 10,000 ہزار میگا واٹ بجلی کی پیداوار کا اضافہ ممکن ہے۔ مستقبل قریب میں پانچ سالہ منصوبہ کا قیام جو گوادر سے کاشغرتک تیل کی پائپ لائن کی تکمیل بھی ا س منصوبہ میں شامل ہے۔ 40% فیصدکے قریب مشرقی اور مغربی انفارا سکٹچررُوٹ (نئی اور پرانی سڑکیں کی کشادگی ، ریلوے لائنز ، ٹرانسپورٹیشن) کی تعمیرجن میں سپر ہائی وے سے قراقرام ہائی وے او ر شاہراہ قراقرام سے چین (صوبہ سیکیان ، کاشغر )شامل ہے ۔ چین نے صوبہ سیکیان سے آگے سینٹرل ایشیاء ریپبلک تک رسائی کیلئے پہلے ہی سڑکوں ، ریلوے لائز کی تعمیرکا کام شروع کررکھا ہے جس سے کرغکستان، تاجکستان اور دیگر ممالک سے زمینی رابطہ آسان ہو گا۔ پاکستان اور چین کے درمیان تقریبا 1100 سو کلومیٹر سے لمبا روٹ اس پورے خطے کی تقدیر کو بدل دے گا۔ چین روزانہ60 لاکھ بیرل تیل خلیج ممالک سے درآمد کرتا ہے اس پائپ لائن منصوبہ کی تکمیل سے 17%فیصد حاصل کرپائے گا جب کہ گوادر پورٹ پر پاکستان کو بآسانی تیل کی سپلائی میسر ہو گی۔ سی پیک منصوبہ سے کم و بیش 3 ارب افراد کو فائد ہ ہوگا ۔ گوادر سے بحیرہ ہند کے ذریعے بآسانی میڈل ایسٹ میں تجارتی سرگرمیاں بہت ہی کم فاصلے میں تیزی کے ساتھ فروغ پائیں گی ۔پاک چین راہداری منصوبہ دونوں ممالک کے ساتھ ترقی و خوشحالی کے ساتھ مشرق وسطی کے ممالک کے انتہائی قریب گزر گاہ ہے ۔ اسکی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر یہ بندر گاہ پورے خطے کی تقدیر بدلے گی۔ خلیج ممالک میں متحدہ عرب امارات، قطر، سعودی عرب، کویت ، عراق، یمن اور ایران کی تجارتی مارکیٹوں میں دونوں ممالک اپنی منصوعات کو فروغ دیے گئے۔ پاکستان اور چین دونوں ملکوں کومالی و دفاعی فوائد میسر آئیں گئے۔ پاکستان میں روزگار کے بے پناہ مواقع پیدا ہونگے ،غربت کا خاتمہ ہوگا پاور و انرجی سیکٹر میں اندھیروں کے بادل چھٹ جائیں گئے ، معاشی، اقتصادی اور دفاعی طور پر ہم مستحکم ہونگے۔
C Pack Project
چین پاک اقتصادی راہ داری کا روٹ چین کے صوبے سیکیان سے شروع ہو تا ہے جو پاکستان میں قراقرم ہائی وئے ،گلگت ،بلتستان کے علاقے خنجراب سے منسلک ہے ۔ ضلع گلگت سے یہ روٹ کے پی کے میں ایبٹ آباد سے ہری پور جہاں سے یہ روٹ پنجاب کی حدود حسن ابدال سے ہوتاہوا برہان سے مل جاتا ہے ۔ برہان کے مقام پر اسلام آباد و پشاور موٹر وے کے ذریعے سے گوادر کا سفر شروع ہو تا ہے۔ اس منصوبے کے دو روٹ کو ترتیب دئیے گئے ہیں : مشرقی اور مغربی ۔ مشرقی روٹ پہلے ہی کارآمد اور موثر ہے ۔ پاکستان و چین کی گوادر پورٹ کا قیام اس خطے کا ایک بہت بڑا دفاعی مرکز ہے۔ پاک چین راہ داری منصوبہ سے ویسٹ ، ایسٹ اور سنٹرل ایشاء کے تمام ممالک تک رسائی(ویسٹ ایشیاء : گوادر پورٹ روٹ ۔ سینٹرل ایشیاء : مغربی رو ٹ ۔ ایسٹ ایشیاء : مشرقی روٹ) عام ہو جائے گی ۔ایسٹ کُوری ڈور ( مشرقی روٹ): یہ روٹ تین صوبوں پنجاب سندھ اور بلوچستان سے نکلتا ہوا گوادر پورٹ سے جا ملتا ہے جس کا کل فاصلہ: 2781 کلومیٹرہے۔ یہ روٹ شاہراہ قراقرام سے ہوتا ہوا موٹر وے اسلام آباد براستہ کراچی ہے۔اس روٹ پر بڑے شہروں میں اسلام آباد، لاہور، ملتان، سکھر، حیدرآباداور کراچی شامل ہیں ۔ کراچی سے گودار جانے کے لئے 653 کلومیٹر مکران ہائی وے کے ذریعے سے با آسانی گوادر تک راسائی حاصل ہے۔ ویسٹ کُوری ڈور ( مغربی روٹ): یہ روٹ بھی تین صوبے پنجاب، کے پی کے ا ور بلوچستان پر مشتمل ہے رو ٹ کا فاصلہ: 2674 کلو میٹرہے ۔ شاہراہ قراقرم سے پنجاب کے علاقے اٹک سے ہوتاہوا کے پی کے میں ڈیرہ اسماعیل خان پھرآگے فاٹا، جہاں سے یہ بلوچستان کے علاقے ژوب سے قلعہ سیف اللہ کو ملاتا ہوا کوئٹہ سے آگے سوراب ، پھر پنجگوراور آخر میں گوادر سے جا ملتا ہے۔
چین اور پاکستان مشرقی اور مغربی دونوں روٹ کو مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ مشرقی روٹ جو کہ پہلے ہی کار آمد ہےموٹر وے کے تجارت کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ موٹر وے کی لائنز کو مزیدوسیع و کشادہ کرنے پر تیزی سے کام جاری ہے۔ مغربی روٹ جو لانگ ٹرم ہے جس سے افغانستان کے راستے دیگر ممالک تک اقتصادی سرگرمیاں قائم ہوں گی ۔مغربی روٹ اُس وقت کارآمد ہوگا جب افغانستان میں امن و سلامتی قائم ہو گی جو موجودہ اور آنے والے کئی سالوں میں مشکل نظر آتا ہے اس کے ساتھ اس پر بھاری خراجات درکار ہے ۔ پاک چین راہ داری سے بھارت کا انٹرنیشنل مارکیٹ میں کنٹرول کے ساتھ ساتھ رول کا خاتمہ ہو جائے گا ، چین بھارت کی معاشی، اقتصادی اور دفاعی ترقی کا مقابلہ بہتر طور پر کر سکے گا۔سی پیک راہداری منصوبہ کے قیام سے جہاں بھارتی جارحیت کا خاتمہ ہو گا وہاں بھارت کی پورے خطہ (ریجن) میں اجاراداری کا خاتمہ ہوجائے۔ بھارت نے دنیا کو بتانے کیلئے افغانستان میں تجارتی و سرمایہ کاری کی غرض سے کئی عرصہ سے ا نوسٹمنٹ کر رکھی ہے اسی غرض سے وہ ایران کے ساتھ مل کر ٹریڈ روٹ چابہارسے افغانستان تک تعمیرکے پر تول رہا ہے جو افغانستان سے آگے سینٹرل ایشیاء ممالک تک ہوگا ۔ بھارت کو یہ اندازہ ہے کہ یہ تجارتی روٹ اُسی وقت کارآمد ہو گا ہے جب افغانستان میں ایک نیوٹرل حکومت کی رٹ (ویسٹ افغانستان) پورے افغانستان پر قائم ہو گئی، جوکہ ابھی ممکن نہیں ہے اس لئے بھارت کو سی پیک کی کامیابی اور اپنی ناکامی پر سخت شرمندگی اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پاک چین راہ داری منصوبہ پر کئی عالمی طاقتوں کے سخت تشویش لاحق ہے، امریکہ اور بھارت دونوں دفاعی معاہدوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے آگے بڑ ھ رہے ہیں دونوں ممالک کی کوشش ہے کہ چین اور پاکستان کے تابناک گیم چینجرتاریخ ساز منصوبے کو رول بیک کیا جائے۔ بحثیت قوم تمام تمام سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں او ر ملکی سلامتی کے تمام اداروں کے اولین ذمہ داری ہے وہ اختلافات کو پش پشت ڈال کر اس کی تکمیل کے لئے یک جان ہو جائیں، اس سلسلے میں اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب مل کر کسی بھی بیرونی اور اندرونی سازش کوکامیاب نہ ہونے دیں۔