”دوسری شادی”

Marriage

Marriage

تحریر:مجید احمد جائی

دین اسلام مردوں کو چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے۔لیکن ساتھ شرائط بھی رکھی گئی ہیں۔اول پہلی بیوی دوسری شادی کی اجازت دے دے،یا پہلی بیوی وفات پاجائے۔پہلی بیوی سے اولاد پیدا نہ ہوتی ہو، اور وہ خوشی سے دوسری شادی کی اجازت دے دے۔لیکن ہمارے معاشرے میں بہت سے غلیظ رواج داخل ہو گئے ہیں۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم بہت عرصہ ہندئووں کے ساتھ رہے ہیں۔دوسرا یورپ والوں نے ہماری کمزوری تلاش کی اور اپنی عورتیں برہنہ کرکے ہمارے سامنے کھڑی کر دی۔یورپ والے ترقی کرتے کرتے مریخ سے آگے چلے گئے اور ہم ان کی ننگی عورتوں کو تکتے رہ گئے۔پھر جلتی پر تیل کا کام جدید ٹیکنالوجی نے کر دیا۔ہم مثبت استعمال کی بجائے اپنے لئے سکون تلاش کرتے رہے ۔بیہودہ فلموں نے ہماری نوجوان نسل تباہ کردی۔ہمیں اپنی باپردہ عورتیں بُری لگنے لگی۔

حیلے بہانے سے دوسری عورتوں میں تسکین تلاش کرنے لگے۔یوں ہم زمانے میں تماشا بن کر رہ گئے ہیں۔ بات ہو رہی تھی دوسری شادی کی توآج ہماری معاشرے میں عورت دور جاہلیت سے بھی کہیں زیادہ مظلوم بن گئی ہے۔اس دور میں لڑکی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا مگر آج زندہ درگور تو نہیں کرتے ،زندہ رہنے کی سزا ضرور دیتے ہیں۔ایک طرف تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے تو دوسری طر ف گھر کی چاردیورای میں غلام بنا کر رکھا جانے لگا ہے۔کبھی غیرت کے نام پر تیزاب ڈال کر موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے تو کبھی سنسار کیا جاتا ہے۔

کبھی ونی تو کبھی جائیداد کے بٹوارے کے ڈر سے قرآن مجیدسے شادی کر دی جاتی ہے۔عورت کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔نجانے کس جُرم کی سزا دی جاتی ہے۔حیقیت تو یہ ہے عورت کے بغیر مرد ادھورا ہے۔ایسے تو دُنیا نہیں کہتی کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔عورت اجڑے گھر بھی گلشن بنا دیتی ہے۔عور ت کے کئی روپ ہیں اور ہر روپ نرالا ہے ۔عورت ماںہے تو اس جیسا شفیق کوئی نہیں ہے۔عورت اگر بہن ہے تو بھائیوں کے نخرے اٹھاتی ہے اور ان کا مان بڑھاتی ہے ،عورت اگر بیوی ہے تو اس جیسا شریک حیات کوئی نہیںہے ۔مگر کیا کریں مرد خود کو حکمران جو گردانتا ہے۔چاہے ہمیشہ ناکامی مرد کامنہ ہی کیوں نہ چڑھتی ہو۔

آج کے جدید دور میں جہاں انسان ترقی کرتے کرتے مریخ سے آگے نکل گیا ہے۔مگروہاں شریک حیات کے معاملے میں بُری طرح ناکام ٹھہرا ہے۔چار چار شادیا ں کر لیتا ہے لیکن ایک بیوی کے حقوق بھی پورے نہیں کر سکتا ۔آج ایوانوں میں اکثرت ایسے لوگوں کی ہے جو چار چار شادیوں کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔شہروں کی بات چھوڑیں دیہاتوں کی با ت کی جائے تو جاگیرداروں نے چار کے ہندسے کو بھی مات دے دی ہے ۔اپنی شریک حیات کو کبھی بھی شریک حیات نہیںسمجھا۔ظلم و ستم کے پہاڑ گِرائے ہیں۔گھر میں نوکرانی جیسی حیثیت دیتے ہیں۔ان کو معاشرے میں جینے کی سزا دی جاتی ہے۔

ایک طرف جاگیردانہ نظام نے عورت پر ظم و ستم کی انتہا کر رکھی ہے تو دوسری طرف ہماری عدالتیں،آزاد ہو کر آزاد نہیں ہیں۔عدل و انصاف سنتے ضرور ہیں مگر کبھی دیکھا نہیں کہ انصاف ملا بھی ہو۔ہاں البتہ گھر سے فرار لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے کسی انعام سے کم نہیں ہیں۔جہاں وہ دو دو ہزار میں جھوٹے ماں باپ بنا کر عدالتوں میں حاضر کر دیتے ہیں۔ہماری عدالتیں بنا تصدیق کیے نکاح پڑھا دیتی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ایسے نکاح جائز ہیں۔شریعت ایسے نکاح کی اجازت دیتی بھی ہے کہ نہیں۔کیا ایسے نکاح زنا کے زمر ے میں تونہیں آتے۔دیہاتوں میں نااہل نکاح خواں ،نکاح پہ نکاح کردیتے ہیں تو عدالتیں بھی کم نہیں کرتیں۔چھان بین کی زحمت کون کرے کے مصدق نکاح کردیئے جاتے ہیں۔

Society

Society

ہمارے معاشرے کو یورپ کی ہوا لگ گئی ہے۔راہ چلتی،بازار میں گھومتی، گاڑیوں میں سفر کرتی ہر دوسری عورت پسند آجاتی ہے۔اوپر سے شوشل میڈیا ،انٹرنیٹ نے نوجوانوں کو وقت سے پہلے جوان کر دیا ہے۔جدید ٹیکنالوجی نے ترقی کی راہوں سے ہمکنار کیا ہے وہاں نوجوان نسل نے اس کا غلط استعمال کرکے اپنے آپ کو تباہی کے دہا نے پر لے آئی ہے۔جن کی ذمہ داریاں ہیں وہ بھی برابر کے شریک ہیں۔ کالج، یونیورسٹیاں عشق لڑانے کی آہ مگاہ بن گئیں ہیں۔گھر سے تو چلتے ہیں علم حاصل کرنے لیکن عشق کی ڈگریاں تھمامے گھر کا راستہ ہی بھول جاتے ہیں۔

ہماری عدالتیں سہارا دیتی ہیں،کس کو خبر ہوتی ہے کہ یہ پہلے سے شادی شدہ ہیں ،یا کنوارے؟ عدالتیں اور نکاح خواں اس بات کی کم از کم تصدیق تو کر لیںکہ جن کا نکاح کروا رہے ہیں پہلے سے شادی شدہ تو نہیں ہے۔کہیں لڑکے یا لڑکی کا کہیں نکاح ہوا تونہیں ہے۔حکومت اور قانون بنانے والے اداروں کو چاہئے کہ ایسا قانون نافذ کروائیں جن سے ایسا کرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جا سکے۔ان کی وجہ سے معاشرے میں جو بگاڑ پیدا ہو رہا ہے ،ختم کیا جا سکے۔

عورتوں کے حقوق کی پامالی نہ ہو۔عورت کو وہ مقام و مرتبہ ملنا چاہیے جو آج سے چودہ سو سال پہلے ہمارے پیارے آقا حضر ت محمد ۖ نے قائم فرمایا ۔عورتوں کو جائیداد میں حصہ دیا جائے،این جی اوز جو حقوق نسواں کے لئے کام کر رہی ہیں حرکت میں آئیں اور عورتوں پربڑھتے ہوئے تشدد کو روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں، تاکہ معاشرے میں امن امان قائم ہو سکے۔

Abdul Majeed Ahmed

Abdul Majeed Ahmed

تحریر:مجید احمد جائی
majeed.ahmen2011@gmail.com