آج انسان نے دنیا میں وہ تمام وسائل حاصل کر لیے ہیں جن کے استعمال سے وہ حد درجہ آرام و آسائش کی زندگی گزارسکتا ہے۔اس کے باوجوداس کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے مزید ترقی و بلندی اور کامیابی و کامرانی کی خواہش ودیعت فرمائی ہے۔جس کی بنا پر وہ جو کچھ حاصل کر ہو چکا ہے اس پے قناعت نہیں کرتا بلکہ جو کچھ حاصل نہیں ہوا ہے اس کے حصول میں سرگرداں رہتا ہے۔ یہی وہ فطری نظام ہے جس کی بنا پر آج کا انسان ترقیوں کی منازل طے کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔اب یہ الگ بحث ہے کہ یہ ترقی کی منزلیں کون لوگ طے کررہے ہیں اور کس گروہ کو اس کام پے لگایا گیا ہے اور کیوں؟مسلمانوں کا بحیثیت قوم ان ترقیوں اور کامرانیوں میں کتنا حصہ ہے اور دیگر اقوام کا کتنا؟یہ بات بھی موجودہ دور میں تبادلہ خیال کے لیے اہم ہے کہ آیا جن اقوام کا نام وسائل کے حصول اور اس کی ترقی کے لیے پیش کیاجاتا ہے ،کیا درحقیقت صرف وہی ہیں جنہوں نے اِن ترقیوں کی منازل کو طے کرنے میں جدوجہد کی ہے ؟یا یہ ترقی و کامیابی کی منازل من جملہ انسانیت اور مختلف اقوام و مذاہب کی ہمہ جہت کوششوں کا نتیجہ ہے؟بہرحال ان موضوعات پے کسی اور وقت تبادلہ خیال ہو گا۔فی الوقت ہم دیکھنا یہ چاہتے ہیں کہ انسان درحقیقت انسان کامل کب اور کن حالات میں بنتا ہے؟وہ کون سے اعمال ہیں جن کے اختیار کے نتیجہ میں وہ انسان کامل کہلانے کا حقدار ہے؟اور وہ کون سے کام ہیں جن کی انجام دہی سے وہ اپنی حیثیت کھوتا جاتا ہے ؟یہاں تک کہ وہ جانوروں تک سے گری ہوئی مخلوق بن جاتا ہے۔اس پس منظر میں غور کیا جائے تو زمین پر بسنے والے تمام ہی افراد و گروہ اورمذہبی عقائد و نظریات کے حاملین اس بات پر متفق ہیں کہ انسان خود بہ خود وجود میں نہیں آیا ہے۔بلکہ پہلا انسان جب دنیا میں آیا تو رب کائنات نے اس کی تخلیق کی اور اس کی نسل ہی سے یہ نوع انسانی برپا کی گئی اور جاری ہے۔ساتھ ہی آج دنیا میں جتنے بھی مذہب موجود ہیں ان کے معتقدین کے پاس ایسا کوئی مستند قول موجود نہیں ہے،جوترمیم سے محفوظ ہواورجس کی روشنی میں اس بات کو سمجھا جا سکے کہ انسان کس طرح وجود میں آیا؟اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن حکیم کے علاوہ ہمارے پاس کوئی ایسی تحریر نظر نہیں آتی جس پے یقین کیا جاسکے اور جو اپنے آغاز نزول سے آج تک محفوظ ہو۔لہذا ہمیں دیکھنا ہوگا کہ انسان کی تخلیق اور بعد کے مراحل میں اُس کا خالق’انسان کامل’کے تعلق سے کیا رہنمائی کرتا ہے؟
قرآن حکیم میں انسان کی تخلیق کا واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کی تخلیق پہلے انسان کی شکل میں کی ہے ۔ساتھ ہی حوا علیہ السلام کو تخلیق کیا۔یہی آدم و حوا پہلے ماں باپ ہیں جن کی نسل قیامت تک جاری رہے گی۔آدم اور حوا کو دو بیٹے ہابیل اور قابیل عطاکیے لیکن قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا ۔اسلامی روایات کے مطابق اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک اور بیٹاعطا کیا جس کا نام انہوں نے شیث ۖرکھا۔یہ شیث علیہ ہی ہیں جن کی نسل سے تمام انبیاء کرام پیدا ہوئے اور یہی تمام انبیا علیہ السلام کے باپ ہیں۔قرآن حکیم میں جن انبیا و رسولوں کا تذکرہ ہے ان کی تعداد تقریباً25ہے۔ان کے نام یہ ہیں:آدم،ادریس،نوح ،ھود ،صالح ،ابراہیم ،لوط،اسماعیل ،اسحاق ،یعقوب ،یوسف ،ایوب ،شعیب ،موسیٰ علیہ السلام،ہارون ،دوالکفل ،دائود ،سلیمان ،الیاس ،الیسع ، یونس ،زکریا ،یحییٰ علیہ السلام،عیسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔یہ پچیس انبیا کرام و رسولوں کا قرآن میں تفصیل سے تذکرہ ہے۔اِن انبیا کرام و رسولوں کی قوموں کا تذکرہ ہے۔قوموں کی بدکاریوں کا تذکرہ ہے۔ساتھ ہی دیگر واقعات قرآن حکیم میں اس غرض سے نازل ہوئے ہیں کہ واقعات میں درج شدہ خیر و شر کے مختلف پہلوئوں سے قیامت تک آنے والے انسان آگاہ ہو جائیں۔نیز اپنے شب و روز کے اعمال میں انِ برائیوں سے دوری اختیار کریں اور بھلائیوں و نیکی کے کاموں سے سبقت کریں۔نتیجہ میں وہ نہ صرف دنیا میںبلکہ آخرت میں بھی سرخ رو ہوسکتے ہیں،کامیابی و کامرانی ان کے حصہ میں آسکتی ہے اور بلندی و ترقی کی منازل کو وہ طے کرتے ہوئے آگے بڑھ سکتے ہیں۔یہاں تک کہ وہ انسان کامل بن سکتے ہیں۔
انبیاء کرام ورسولوں کے تذکرے کے بعد آئیے اِن قوموں کی بدکاریوں اورمخصوص واقعات پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں۔جس کے نتیجہ میںیا تووہ ہلاک ہوئیںیامسائل سے دوچارہوئیں۔یہاں تک کہ انہیں ذلت و مسکنت کی زندگی گزارنی پڑی۔اور دنیا و آخرت ہر دو مقام پر ان کے لیے ناکامی و نامرادی لکھ دی گئی۔ہابیل اور قابیل کے تذکرے میں اس برائی کا تذکرہ کیا گیا ہے جس میں بلا جواز ایک معصوم اور بے گناہ انسان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔یہی بات مختلف روایات میں اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلمۖ نے بھی بیان فرمائی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے اس کی سزاجہنم ہے۔ہابیل کے اس قتل کے ساتھ ہی قابیل اور اس کی قوم نے نہ صرف خد ا سے بغاوت اور اس کی بندگی سے اعلان براء ت کیابلکہ شرک اور بت پرستی اوردیگر گمراہیوں میں بھی وہ مبتلا ہوگئی ۔نتیجہ میں حضرت نوح کے دور میں ایک سیلاب عظیم آیا ۔یہ سیلاب دراصل اُس قوم کی بغاوت کا نتیجہ تھا جس کی پاداش میں اللہ کا عذاب نازل ہوا اورقابیل کی پوری نسل غرق کردی گئی،اس کا خاتمہ ہو گیا۔حضرت ابراہیمۖ کے زمانے میں دنیا شرک ،بت پرستی کے علاوہ ستارہ پرستی میں بھی ملوث ہو چکی تھی۔ان مشرکین کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مختلف طریقوں سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانے اور یہی کہتے رہے کہ ہم نے اپنے آبا ئو اجداد کو اِنہیں کی پوجا کرتے دیکھا ہے۔یعنی جو کچھ ہمارے آبائو اجداد کرتے آئے ہیں وہی ہم کرے رہے ہیں اور یہی حق ہے۔
حضرت ابراہیم نے اپنی قوم اور ان کی بت پرستی کو چھوڑ کر ان سے علیحدگی اختیار کرلی،بعد میں اِس قوم کو دنیا سے مٹا دیا گیا۔حضرت ابراہیم کے بھتیجے حضرت لوط کی قوم نہایت مغرور،بے حس اور نافرمان تھی اور ان کا سب سے بڑا گناہ یہ تھا کہ اِن میں ،مرد، عورتوں کی بجائے مردہی سے اپنی جسمانی حاجت پوری کرنے کے عادی ہوگئے تھے۔حضرت لوط نے اس بدکاری کے نقصانات سے ڈرایااور ہرممکن طریقہ سے ان کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانے یہاں تک کہ ان پر عذاب نازل ہوا اور انہیں جڑ سے مٹا دیاگیا۔حضرت لوط کے بعد حضرت اسحاق کے تذکرے میںہمارے لیے یہ واقعہ اہم ہے کہ کس طرح جسم میں حددرجہ زخموں کے نکل آنے کے باوجود،جس کی تکلیف بیان سے باہر ہے آپ نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہے۔اسحاق کے بعد قرآن حکیم میں یوسف ۖ اور ان کی پاک دامنی کو بطور مثال مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ جب کبھی بھی تمہیں زنا کی طرف مائل کیا جائے اور کسی بھی طرح راغب کیا جائے تو اُس واقعہ یاد کرلینا چاہیے جو حضرت یوسف ۖ کے ساتھ پیش آیاتھا۔ اُس موقع پر آپ نے برائی سے نجات کے لیے جیل جانا پسند کیا ناکہ برائی میں ملوث ہو گئے جو حرام ہے۔
حضرت ایوب ۖ کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”بے شک ہم نے اُس کو صابر پایا”، ایسا صابر کی اس کی دوسری کوئی نظیر و مثال نہیں مل سکتی۔یہاں تک کہ صبر ایوب ضرب المثل بن گیا۔ابن عساکراپنی سند سے بیان کرتے ہیں کہ:”یہ سب زمین ایوب کی ذاتی ملکیت تھی اور ایوب کے اہل وعیال کثیر تعداد میں تھے۔پھر یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف واپس لے لیا گیا اور ایوب مختلف جسمانی تکالیف میں مختلف ہوگئے ۔دل اور زبان کے سوا جسم کا کوئی بھی حصہ اور عضو صحیح سالم نہ رہا۔دل اور زبان کے ساتھ ایوب یادِ الٰہی میں مشغول رہتے تھے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے۔ایوب نے ان تمام جسمانی ومالی مصائب میں اللہ سے ثواب کی امید لگائے رکھی۔ہر وقت اللہ کی یاد میں مصروف رہے اور جب ایوب کی بیماری نے طول پکڑا تو دوست احباب وحشت محسوس کرنے لگے۔ساتھ بیٹھنے والے نفرت کرنے لگے تو ایوب کو شہر سے باہر پھینک دیا گیا۔اور بیوی کے سوا سب دور رہنے لگے۔یہاں تک کہ اللہ نے ان کے لیے ایک قدرتی چشمہ جاری کر دیا جس کے پانی میں یہ خاصیت تھی کہ اس سے غسل کرنے اور اس کو پینے سے ان کی بیماری دور ہو گئی۔ یہ علاج اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کو کوئی سخت جلدی بیماری ہو گئی تھی، اور بائیبل کا بیان بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ ان کا جسم سر سے پاؤں تک پھوڑوں سے بھر گیا تھا۔۔۔۔(جاری)
Mohammad Asif Iqbal
تحریر : محمد آصف اقبال maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com