تحریر: رانا اعجاز حسین۔ ملتان برادر دوست ملک چین نے ہمیشہ پاکستان سے دیرینہ تعلقات کواولیت دی ہے۔ خاص طورپرچین پاکستان میں توانائی منصوبوں، صنعت وتجارت اورسماجی خدمات کے شعبوں میں ہمیشہ دل کھول کرہماری مدد کرتا آیا ہے۔ شہد سے میٹھی، سمندر سے گہری، ہمالیہ سے بلند پاک چین دوستی ایک تاریخی حقیقت ہے۔ پاکستان پر جب بھی کوئی آزمائش یا مشکل وقت آیا دوست ملک چین نے ایک قدم آگے بڑھ کر پاکستان کی مدد کی اور پاکستانیوں کو گلے سے لگایا ہے۔
پاک چین اکنامک کوریڈور سے پاکستان میں معاشی ترقی کے نئے باب کھلنے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ 46ارب ڈالرکے اقتصادی راہداری پاکستان چائنہ اکنامک کو ریڈور منصوبہ دونوں ممالک کیلئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ منصوبہ جہاں پاکستان کی ترقی کا روڈ میپ ہے، وہاں چین کیلئے بھی اس اقتصادی راہداری کے ذریعے اپنی تجارت کو عرب ممالک اور مغربی دنیا تک پھیلانے کا ذریعہ ہے، اس سے یقینا چین کے عالمی سپر پاور بننے کی راہ ہموار ہوگی۔ پاکستانی سرحد سے متصل چین کا مغربی علاقہ چھ صوبوں اور پانچ خود مختار ریاستوں پر مشتمل ہے۔
مغربی چین کے ان علاقوں کی پسماندگی پاکستان کے مغربی علاقے فاٹا، خیبرپی کے اور بلوچستان جیسی تھی۔ 1978ء میں چین کے ان پسماندہ مغربی علاقوں کو ترقی دینے کیلئے ڈنگ جیاوپنگ نے ”گرینڈ ویسٹرن ڈیویلپمنٹ اسٹریجٹی” کے نام سے طویل المعیاد منصوبے کا آغاز کیا۔ چین نے شنگھائی’ بیجنگ’ مشرق وسطی اور دیگر علاقوں کے صنعتکاروں کو بے تحاشہ مراعات دے کر ان مغربی علاقوں میں صنعتوں کا جال بچھادیا۔ چین کی جانب سے اپنے مغربی علاقے میں 38 سال قبل شروع کیا گیا ”گرینڈ و سیٹرن ڈیویلپمنٹ اسٹریجٹی منصوبہ ”اپنی تکمیل کے قریب پہنچ چکا ہے۔ چین کے مغربی علاقے پر مشتمل معاشی حب میں تیار ہونے والے مال کو عرب ممالک اور مغربی دنیا تک پہنچانے اور پھر ان صنعتوں کیلئے درکار خام مال لانے کیلئے روٹ کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو چین نے اپنے دیرینہ دوست پاکستان کو منتخب کیا، کیونکہ کاشغر سے شنگھائی کا فاصلہ پانچ ہزار کلو میٹر ہے جبکہ گوادر سے کاشغر تک کا فاصلہ صرف دو ہزار کلو میٹر ہے۔
China-Pakistan Economic Corridor
چین، افغانستان کے راستے وسط ایشیاکے ساتھ بھی تجارت کا خواہاں ہے۔ تاریخی اقتصادی راہداری کی تکمیل سے وسط ایشیائ، جنوب مشرق ایشیائ، مشرق وسطی کے ممالک کے درمیان تجارتی نقل و حمل کی ایسی زنجیروجودمیں آجائے گی جو یقینی طور پر پاکستان کو معاشی بلندیوں پر لے جائے گی۔ آئے روز بدامنی کا سبب بننے والے علاقے فاٹا، خیبر پی کے اور بلوچستان میں معاشی ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ اس منصوبے پر 8 صنعتی زونز قائم کئے جائیں گے جو پاکستان کی ترقی میں اہم سنگ میل ثابت ہوں گے ۔ اور اس سے پاکستان کے جغرافیائی محل و قوع اور اسٹرٹیجک اہمیت میں اضافہ ہوگا۔ پاک چین اقتصادی راہدی منصوبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ منصوبہ عالمی سطح پر زیر بحث ہے، اور جب سے چینی صدر شی چن پنگ اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اس منصوبے کا افتتاح کیا ہے پاکستان مخالف عناصر کی نیندیں اڑ گئیں ہیں۔
اس منصوبے کی تکمیل کے بعد پاکستان معاشی استحکام حاصل کرکے ا یشیائن ٹائیگر بن سکتا ہے، بلاشک و شبہ اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کی معاشی ترقی کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن اب اقتصادی راہداری کے روٹ سے متعلق نیا تنازع کھڑا کر کے اس منصوبے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ خیبر پی کے کی سیاسی قیادت کے خدشات ہیں کہ اگر دوسرے اور تیسرے روٹس کا استعمال نہ ہوا تو خیبرپی کے کا بڑا حصہ ترقی کے ثمرات سے محروم ہو جائے گا۔
خیبر پی کے حکومت نے وفاقی حکومت کیخلاف سی پیک منصوبے پر عدالت جانے کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلے میں خیبر پی کے حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ صوبے کو سی پیک منصوبے میں نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل عمران خان اور وزیراعلیٰ خیبر پی کے نے سی پیک روٹ کے حوالے سے پاکستان میں چین کے سفیر پر اعتماد کا اظہار کیا تھا، مگر جب چین کے سفیر نے عمران خان اور پرویز خٹک سے ملاقاتیں کرکے انہیں دوٹوک الفاظ میں باور کرادیا کہ سی پیک میں خیبر پی کے سمیت تمام صوبوں کے حقوق و مفادات کا مساوی خیال رکھا گیا ہے، اسکے باوجود پی ٹی آئی کی قیادت سی پیک کی مخالفت کرکے نہ جانے کون سا سیاسی انتقام لے رہی ہے۔
ملکی ترقی کے حامل اقتصادی راہداری منصوبے سے متعلق جنم لینے والی افواہوں اور عدم اعتماد کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ملک بھر کی سیاسی و مذہبی جماعتوں اورچاروں صوبائی حکومتوں کو اعتماد میں لیں اور پاک چین اکنامک کوریڈور سے متعلق پائے جانے والے خدشات دور کریں، تاکہ عوام پاکستان کو گمرہ کن افواہوں سے نجات مل سکے اور ترقی کا یہ سفر بغیر کسی روک ٹوک کے جاری رہ سکے۔ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہماری ترقی و خوشحالی کے ضامن کالاباغ ڈیم منصوبے کی مخالفت اور اسے متنازعہ بنانے میں بھی بھارت کا ہاتھ تھا جس کیلئے خیبر پی کے سے ہی ایک دوسری جماعت اے این پی کو استعمال کیا گیا۔ کالا باغ ڈیم کی طرح پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو بھی متنازع بنانے کے لئے ملک دشمن عناصر دن رات مصروف عمل ہیں تاکہ پاکستان کو شاہراہ ترقی پر گامزن ہونے سے روک سکیں۔ لیکن اس بار ہمیں ملک دشمن عناصر کا آلہ کا ر بننے کی بجائے ترقی کا سفر روکنے والے عناصر کے عزائم کو ناکام بنانا ہو گا۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر: رانا اعجاز حسین۔ ملتان ای میل:ra03009230033@gmail.com رابطہ نمبر:0300-9230033