ڈی جی خان : گذشتہ روز مورخہ 4 اپریل کو ہمارے میڈیا نے پاکستانی قوم کو ایک بار پھرسکتہ میں مبتلا کردیا ایک چینل نے بریکنگ نیوز دی کہ ڈی جی خان کے ایک سکول میں دہشت گردوں نے حملہ کردیا اور پولیس کا ان کے ساتھ مقابلہ جاری ہے۔ سنسی خیز لمحہ بہ لمحہ خبر کا فالو اپ دیا جاتا رہا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہوگیا وہ ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ حالانکہ شروع میں ہی صورت حال واضح ہوگئی تھی کہ اصل میں ہوا کیا ہے۔
یہاں دو طرفہ غلطی کی گئی ایک رپورٹرز نے واقعہ کی اپنی طرف سے دہشت گردی قرار دیا اور اپنی اس غلطی کو چھپانے کے لیے کافی دیر تک غلطی در غلطی کرتے رہے۔ اور دوسری طرف پولیس کی جانب سے تاخیر سے حالات و واقعات پر مبنی اطلاعات دی گئیں۔ اور جو اطلاعات دی گئیں وہ بھی مبہم تھیں۔ لیکن عینی شاہدین اور سی سی ٹی وی فوٹیج سے اسی وقت یہ معلوم ہوگیا تھا کہ اصل میں ہوا کیا ہے۔
اب جب کہ ساری صورت حال سامنے آگئی ہے۔ اور پولیس نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے کہ گولی اصل میں ایک طالب علم سے چل گئی۔ چوکیدار جو کہ گارڈبھی تھا نے اپنی گن گیٹ کے ساتھ بنے ہوئے چبوترے میں رکھ کر گیٹ کھولنے گیا اور اسی دوران ایک طالب علم نے گارڈ کی رکھی ہوئی گن کو چھیڑا اور گولی چل گئی جو کہ سیدھی گارڈ کو جا کر لگی۔ یہ فوٹیج اسی وقت دستیاب تھی مگر اس کو دیکھنے کے بعد اگلے دن سرکاری نوٹ جاری ہوا۔ اس پر تبصرہ نہیں کرتے مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ سکول کے چوکیدارغلام عباس سے ایک وقت میں تین تین ڈیوٹیاں لی جارہی تھیں ایک گارڈ کی دوسری گیٹ مین کی اور تیسری شاید چپراسی کی بھی۔ وہ اگر صرف گارڈ تھا تو پھر وہ گیٹ میں کیوں بنا ہوا تھا۔
گارڈ اصولی طور پر گیٹ کے باہر ہوتا ہے۔ سکول کے اندر بند گیٹ کے پیچھے نہیں اور یہ سکول کی مینجمنٹ کی کمزور بھی تھی کہ بچے گارڈ والی جگہ جہاں گن بھی رکھی ہوئی تھی وہاں کیوں کھیل کودھ رہے تھے دوسرے لفظوں میں وہاں ان کی موجودگی کیوں تھی۔ ہماری سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ سکول کے چپراسی ، چوکیدار، مالی ، گیٹ مین ، کو گارڈ کا درجہ کیوں دی جاتاہے۔ اس کے لیے الگ سے تربیت یافتہ سیکورٹی گارڈ بھرتی کیوں نہیں کئے جاتے۔ اور جہاں تک ہماری معلومات ہین حکومت کی بھی یہی پالسی ہے کہ سیکورٹی گارڈ کی آسمامی رکھتے ہوئے باقاعدہ سیکورٹی گارڈ وہ بھی تربیت یافتہ ہو کی تعیناتی کی جائے۔
اب اگر سکول انتظامیہ اسی طرح سکول کے مالی، چوکیدارکو سیکورٹی بنا کر اس سے ڈیوٹی لیتی رہی تو پھر ایسے واقعات کے ہونے کا خطرہ تو ہے۔ آخر میں بچے سے اتفاقیہ گولی چل جانے کے واقعہ میں ہلاک ہونے والے سکول کے ملازم کے لواحقین سے اظہار افسوس وہمدری اور مرحوم کی روح کے ایصال ثواب کے لیے ہم دعا کرتے ہیں۔ اور یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ اس سے کوئی سبق حاصل کیا جائے گا۔