تحریر : میاں وقاص ظہیر تین سال قبل جولائی 2013ء میں فریاد ملک مرحوم نے اس خاکسار کو اپنی تخلیقی تصنیف ”دہشت گرد حکمران اور مظلوم عوام ” دی تھی دیگر کتابوں کی طرح یہ بھی میری بُک شیلف میں پڑی تھی مجھے ان تین سالوں میں جب بھی موقع ملا میں اس کتاب کے مختلف باب وقتاََ فوقتاََ ضرور پڑھتا ، آج سقوط ڈھاکہ کوموضوع بنانا چاہتا تھاکہ شیلف میں کتابیں تلاش کرتے فریاد ملک مرحوم کی تصنیف پر نظر پڑی اس پر پڑی گرد کو جھاڑا کرمطالعہ شروع کیا تو صفحہ نمبر 110پر سقوط ڈھاکہ کا دلخراش واقعہ رقم تھا ، جس میں لکھا تھا کہ مشہور امریکی صحافی اور مصنف رابرٹ پائبنے کے مطابق سقوط ڈھاکہ کے مرکزی کردار جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نہ بہادر تھے اور نہ ہی اچھے جنرل وہ نہایت پست ہمت کاہل فوجی افسر تھے۔
یہاں قارئین ! کی دلچسپی کیلئے اپنے جملے کا اضافہ کرتا چلوں کہ جنرل امیرعبداللہ خان نیازی کا شماران جرنیلوں میں ہوتا ہے جو سپاہی رینک سے جنرل کے عہدے تک پہنچے تھے،رابرٹ مزید بتاتے ہیں کہ جنرل عبداللہ خان نیازی کا کام صرف اتنا تھا کہ ہر صبح میجر جنرل رائو فرمان علی ان کے سامنے کاغذات پیش کرتے اور وہ ان پر دستخط کردیتے ، سہ پہر کا وقت اپنی مرضی سے گزرتے۔
گورنر ہائوس میں ان کا باقاعدہ حرم تھا ،جہاں خوبصورت لڑکیوں کے ساتھ خلوت میں دل بہلاتے تھے ان کا ٹھاٹھ کسی بادشاہ اور ہالی وڈ کی کاسٹیوم فلموں میں پیش کئے جانے والے منظر جیسا تھا ، پاک فوج کے بہادر سپاہی سازش سے بے خبر مادر ِ وطن کی بقاء کی جنگ لڑرہے تھے ، وہ بھی کسی کی آنکھوں کا نور ، کسی کا جگر اور کسی کا سہاگ تھے ، ان کی کشتی کو ناخدا ایسے بھنور میں دھکیل دیا تھا ، جہاں وہ غداروں کے حصار کو توڑنے کی کوشش میں جام شہادت نوش کرتے رہے۔
Jagjit Singh Arora
17دسمبر 1971ء میں بھارتی جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ نے کلکتہ میں اپنی پریس کانفرنس میں بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ پاک فوج کے جوانوں نے جنگ ثابت قدمی اور دلیری سے لڑی مگر ان کے جنرل ناکارہ ثابت ہوئے ، دنیا کو جنرل امیرعبداللہ خان نیازی کے وہ الفاظ آج بھی یاد ہیں کہ بھارتی فوج میری لاش سے گزر کر ڈھاکہ میں داخل ہو سکتی ہے ،کتنا جھوٹ اور کتنا فریب، ایک منصوبے کے تحت پاک فوج کے مورال کو تباہ کرنے کی مکروہ سازش کی گئی، حالانکہ اگر جنرل نیازی چاہتے تو دریائے میگھنا اور مادھومتی کے درمیان اسے بہترین قدرتی سرحد میسر تھی ، اس سرحد پر پیش قدمی کیلئے 14سوفٹ لمبا پل تعمیر کرنادشمن کے بس کی بات نہیں تھی، اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑتا،مگر جنرل نیازی نے سازش کے تحت بغیر کسی مزاحمت کے بھارتی فوج کو پل تعمیر کرنے دیااگر وہ اپنے سپاہی سے وفاداری کرتے تو اس کاکوئی سیاسی حل نکل سکتا تھا۔
آج ہمیں اس ذلت کا سامنا نہ کرنا پڑتا جوہر سال ہمیں 16دسمبر کو کرنا پڑتی ہے، دنیا کی کوئی تاریخ میدان جنگ میں 90ہزار فوج کی اسلحہ سمیت حراست کو فراموش نہیں کرسکتی ، برہمنوں نے پاکستانی غداروں کی بدولت جی بھر کر اپنے آبائو اجدادکی شکستوں کابدلہ لیا، مسلمانوں نے میدان جنگ میں کبھی پیٹھ نہیں دکھائی یہ تو سمندوروں کو عبور کرکے کشتیاں جلادینے والی اور دریائوں میں گھوڑے دوڑا دینے والی قوم ہے ،لیکن جب قیادت ابودائود ، میر جعفر، پورنیاں اور میر صادق جیسے کرداروں کے حصے میں آتی ہے تو ایسے ہی داغ ملک کی تاریخ پر لگتے ہیں جو سقوط ڈھاکہ میں اس مملکت خداد پر لگے۔
سقوط ڈھاکہ مشرقی اور مغربی پاکستان کو دو لخت کرنے کا قصہ نہیں تھا یہ اس دھرتی ماں کا دن دیہاڑے قتل تھا جسے اپنوں سے مل کر اس کی عزت کو سربازار پامال کرنے کے بعد اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ، جبکہ ہماری فوج کو ناجانے کس کس ناکردہ گناہ اور الزامات کا سامنا کرنا پڑااور بنگالیوں کے اندر نفرت کی آگ کا ایسا الائوجلایا گیا ،قوم آج بھی اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔