16دسمبر ایک بار پھر آن پہنچا ہے… وہ دن کہ جب دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست دولخت ہو گئی تھی۔ جب اسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن بھارت نے فتح کے شادیانے بجائے اور جشن منائے تھے۔ جب بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے فتح کے نشے میں جھومتے ہوئے کہا تھا کہ ”ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے”یہ سب کس ملک نے کیا تھا؟ جی ہاں اسی ملک نے کہ جس نے آج تک ہمیں دل سے تسلیم تک نہیں کیا۔ جو تقسیم ہند کے ہر ضابطے اور فارمولے کو روندتے ہوئے آج بھی ہمارے بھاری مسلم اکثریتی خطے جموں کشمیر پر قابض ہے۔ جس نے ہمارے دریائوں پر بڑے پیمانے پر ڈیم بنا کر ہمارے ملک کو صحرا بنانے اور ہمیں دانے دانے کا محتاج بنانے کا مشن ہر روز تیز تر کر رکھا ہے۔ وہی بھارت آج بھی ہمارے سرکریک پر قابض ہے تو سیاچن سے بھی اس نے ہمارا ناطقہ بند کرنا تیز تر کر رکھا ہے۔ بلوچستان میں اس کی مداخلت کا رونا گزشتہ حکومت روتے روتے رخصت ہو گئی اور اب وہی درد نواز شریف نے بھی نیویارک میں من موہن سنگھ کے سامنے رکھا تھالیکن اس سب کے باوجود اسی بھارت کو پسندیدہ کہنے کی رٹ سنائی دیتی ہی رہتی ہے اور دن رات بھارت سے لامحدود تجارت کا خواب توہمارے ہر حکمران کے دل دما غ سے کبھی دور ہوتا ہی نہیں۔
پاکستان توڑنے اور ٹوٹنے کی سازشوں اور سلسلے کا آغاز تو بہت پہلے سے ہو چکا تھا لیکن اس دردناک کہانی کا ایک اہم موڑ 7 دسمبر 1970ء کو منعقد ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات ہیںجن میں 313 نشستوں میں سے 300 پر چنائو ہوا تھا۔ باقی 13 نشستیں خواتین کے لئے مخصوص کی گئی تھیں۔ 300 قابل انتخاب نشستوں میں سے 162 مشرقی پاکستان اور 138 مغربی پاکستان کی تھیں۔ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے 160 نشستیں جیت کر قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر لی جبکہ باقی دو نشستوں میں سے ایک پر قومی جمہوری محاذ کے جناب نور الامین اور دوسری پر اقلیتی بدھ رہنما (چکما قبیلے کے سردار) راجہ تری دیورائے منتخب ہوئے۔ پی پی پی کو مغربی پاکستان سے 81 نشستیں حاصل ہوئیں جن میں بھاری اکثریت یعنی 63 نشستیں پنجاب سے تھیں کیونکہ پنجابی و کشمیری عوام کی اکثریت بھٹو کے کھوکھلے نعروں ”روٹی، کپڑا اور مکان” اور ”ہم کشمیر کے لئے ایک ہزار سال لڑیں گے” پر مر مٹی تھی۔ باقی تین صوبوں سے پی پی پی کی جیتی ہوئی نشستیں یوں تھیں: سندھ (30 میں سے 17)، صوبہ سرحد(موجودہ خیبر پختونخوا) سے ایک اور بلوچستان کی کل 4 نشستوں میں سے صفر۔
یوں اس بدترین جمہوری نظام حکومت نے دنیا کے اس سب سے بڑے مسلم ملک کے ٹکڑے ہونے اور لاکھوں بے گناہ و مظلوم انسانوں کے قتل کی راہ ہموار کر کے اپنی اس حقیقت کو خوب واضح کیا کہ جو اس نظام کی اصل روح ہے۔جب انتخابات کے ان نتائج کو بھٹو اور یحییٰ خاں نے تسلیم نہ کیا تو مشرقی پاکستان میں بھارت نے اپنی سازشیں مزید تیز تر کر دیں اور شیخ مجیب الرحمن کی ذیلی عسکری تنظیم مکتی باہنی کے لاکھوں لوگوں کو جنگی تربیت دے کر اور ان میں بڑے پیمانے پر اسلحہ تقسیم کر کے انہیں اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کر لیا۔ اس کام کے لئے مشرقی پاکستان کی سرحد کے پاس بڑے بڑے کیمپ بنائے گئے۔ بھارتی شہر اگرتلہ میں تو ویسے ہی طویل عرصہ سے شیخ مجیب الرحمن اور اس کے ساتھیوں کا مرکز قائم تھا جہاں سے انہیں دن رات کمک اور مدد فراہم ہوتی تھی۔ (اگرتلہ سازش کیس اس سب کی کھلی کتاب ہے)سو اب تو سونے پہ سہاگہ تھا۔ بھارت کے لئے وہ دن سب سے زیادہ خوشی کا تھا جب 25 مارچ 1971ء کو شیخ مجیب الرحمن اور اس کی پارٹی عوامی لیگ کو غدار قرار دے کر مشرقی پاکستان میں اس کے خلاف آرمی آپریشن شروع کیا گیا۔ یہ سلسلہ چند مہینے جاری رہا اور پھر 3 دسمبر 1971ء کو بھارت نے تمام عالمی قوانین کو روندتے اور باقاعدہ طور پر پاکستانی سرحد کو عبور کرتے ہوئے مشرقی پاکستان پر بڑی فوجی یلغار کر دی۔
Indian Flag
مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان پہنچنے کے لئے پاکستانی افواج کو کولمبو کے راستے تین ہزار میل کا سفر طے کرنا پڑتا تھا کیونکہ بھارت کی فضائی حدود تو پاکستان کے لئے پہلے ہی بند تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ بھارت نے مغربی پاکستان پر بھی ہلہ بول دیا تھا تا کہ یہاں کی حکومت اور فوج کو یہیں الجھایا جا سکے۔ پھر 16 دسمبر کا دن طلوع ہوا تو پاکستان کی افواج نے بے بسی کے عالم میں ڈھاکہ کی ریس کورس گرائونڈ میں بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ کیسا طرفہ تماشہ تھا کہ معاملہ تو پاکستان کے اندرونی سیاسی اختلافات اور باہم سیاسی خلفشار کا تھا لیکن پاکستان بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال کر اپنے ملک کے ایک حصے کو پہلے بھارت کے حوالے اور پھر اسے آزاد ملک کی حیثیت دے رہا تھا اور ساری دنیا تماشائی بنی ہوئی تھی۔ آج کی طرح اس وقت بھی پاکستان کا سب سے بڑا اتحادی اور ”دوست” امریکہ اور یورپ کے ممالک ہی تھے۔ امریکہ نے پاکستان کو بھارت سے بچانے کے لئے اپنا بحری بیڑہ روانہ کرنے کا اعلان کیا تھا جو 16 دسمبر تو کیا آج ہماری مدد کونہ پہنچ سکا۔ آج تک بھارت سے کوئی نہ پوچھ سکا کہ آخر اس نے کس قانون اور کس ضابطے کے تحت پاکستانی سرحد کو روند کر اس کے ملک پر قبضہ کر کے اس کی فوج سے ہتھیار ڈلوائے اور پھر 90 ہزار سے زائد پاکستانیوں جن میں تقریباً نصف سے زیادہ فوجی جوانوں اور افسران کی تھی، کو گرفتار کر کے غلام بنا لیا تھا۔ بھارت کشمیر میں دراندازی کا ڈھنڈورا تو خوب پیٹتا اور دنیا بھر سے پاکستان کا ناطقہ بند کرانے کی ہر وقت کوشش کرتا ہے لیکن وہ جہاں اپنے اس مکروہ ترین عمل کو بھول جاتا ہے تو وہیں کشمیر کو شہرگ کہنے والے بھی اس کے جرم عظیم کا نام تک نہیں لیتے۔
بہرحال اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کے اس ایک خوفناک ترین سانحہ کے بعد اس کے اصل کرداروں کو ان کی من چاہی خواہش دونوں طرف حکومتیں مل گئی تھیں لیکن ایک بات بہت حیران کن ہے کہ بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے والوں کو کبھی غیرت نے نے چھو ا تھا اور وہ پورے طمطراق سے اکڑ کر ملک میں گھومتے، لوگوں سے ملتے اور تقریبات میں شریک ہوتے تھے۔ ہند وستان پر سب سے بڑی یلغاریں کرنے والے مسلم سلاطین محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری کی داستانوں میں یہ بات کثرت سے ملتی ہے کہ جب کبھی ان کے ہاتھوں ہندو راجوں ،مہاراجوں کوشکست ہونے لگتی تھی تو وہ یا توفوج کے شانہ بشانہ لڑتے لڑتے جان دے دیتے تھے یا پھر بعد میںذلت کے ساتھ زندہ رہنے کے بجائے خود کشی کو گلے لگا لیتے۔افسوس کہ بھارت اور ہندوئوں سے متاثر ہونے والے اور انہیں پسندیدہ قرار دینے والے کبھی ان سے ہی یہ سبق بھی یادکر کے اس پر عمل کر لیتے۔
دسمبر1971میں پاکستان ٹوٹا اور پھر 1972ء کا سال طلوع ہوا۔پاکستان کو ٹوٹے ابھی 8 ماہ بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ پاکستان کے وزیراعظم زیڈ اے بھٹو نے اپنے خاندان سمیت بھارت یاترا کی تھی اور اندراگاندھی سے ہنستے مسکراتے ہاتھ ملا کر شملہ معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کی صرف ایک شق کے تحت مقبوضہ و آزاد کشمیر کے مابین سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن تسلیم کر کے قریب قریب بین الاقوامی سرحد ہی مان لیا گیا تھا کیونکہ اس کے بعدسے ہی آرپار کے کشمیری ایک دوسرے سے آج تک کٹے ہوئے ہیں۔
کشمیر کے لئے ہزار سال تک جنگ کے دعویداروں نے جہاںپھر کبھی بھول کر بھی کشمیر کا نام نہ لیا تو بنگلہ دیش نا منظور کی نحیف تحریک کو بھی ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے لئے 1974 میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس بلا لی اور اس میں جہاں خود بھی مشرقی پاکستان کو بطور بنگلہ دیش تسلیم کیا وہیں باقی مسلم دنیا سے بھی تسلیم کرا کر سب سے بڑی عوامی قوت جو شیخ مجیب کی عوامی لیگ کی شکل میں تھی ،سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جان چھڑالی گئی۔
بھارت آج بھی ہمارے ملک کا ویسا ہی دشمن ہے جیسا 1971میں تھا لیکن صد افسوس کہ اقتدار کے ایوانوں جہاں آج تک بھارت کو ویسا دشمن کبھی نہیں سمجھا گیا جیسا سلوک وہ ہم سے آج تک کرتا آیا ہے ۔اس سے بھی زیادہ افسوس اس بات کا اس سے زیادہ ہے کہ پاکستان توڑے جانے اور توڑنے والوں کی حقیقت اور اس حوالے سے سچ بھی دنیا کو اب نہ بتایا جاتا ہے اور نہ ہی سامنے لایا جاتا ہے۔حق اورسچ کو چھپا کرجھوٹ کو پروان چڑھانے اورغداروں اور ملک دشمنوں کو ہیرو کہنے ،سمجھنے اور انہیں قوم پر مسلط کرنے کا یہ سلسلہ نہ جانے کب تک جاری رہیگا۔ نہ جانے کب تک؟