بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ کی گرفتاری انیس سو نوے میں قصور کے قریب ایک دیہات میں ہوئی جوعین پاکستان اور بھارت کی سرحد پر واقع ہے ذرائع کے مطابق سربجیت پاکستان میں بھارتی ایجنسیوں کے لئے جاسوسی کرتا تھا اور گرفتاری کے وقت وہ پاکستان سے بھارت فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ سربجیت سنگھ پر الزام تھا کہ لاہور ،ملتان ،فیصل آباد اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں ہونے والے بم دھماکوں میں ملوث ہے جس میں درجنوں معصوم جانوں کا خون بہا تھا ،بعد ازاں ملزم نے اعتراف جرم بھی کر لیا تھا۔انیس سو اکیانوے میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ کو بم دھماکوں میں ملوث ہونے کی بناء ہر سزائے موت سنائی تھی اس سزا کو سمریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔
2006 میں سپریم کورٹ میں اس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کی گئی تھی جسے سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا تھا اور سزائے موت برقرار رکھی تھی۔2008 میں سربجیت کی بہن دلبیر کور اور سربجیت کی بیٹیاں پاکستان میں آئیں اور اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف سے رحم کی اپیل کی تھی لیکن عوام کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے یہ اپیل مسترد کر دی گئی تھی۔26 اپریل جمعہ کی شام کو لاہور میں واقع کوٹ لکھپٹ جیل جہاں بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ کو رکھا گیا تھا وہاں ساتھی قیدیوں کی جانب سے سربجیت سنگھ پر حملہ کیا گیا جس سے سربجیت شدید زخمی ہو گیا اور فوری طور پر جناح ہسپتال لاہور کی انتہائی نگہداشت کی وارڈ میں رکھا گیا لیکن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ جناح ہسپتال لاہور میں دم توڑ گیا۔
بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ کی موت کے ٹھیک ایک دن بعد بھارت سے خبر آتی ہے جموں کی کوٹ بھلول جیل میںقید پاکستانی شہری ثنااللہ رانجھا پر کچھ قیدیوں نے جان لیواء حملہ کیاجس کے بعد ثنااللہ کو ائر ایمبولینس کے ذریعے چندی گڑھ کے ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا وقفے وقفے سے اطلاعات آتی رہیں کہ ثنااللہ کومے میں چلا گیا ہے اسی ہسپتال میں جمعرات کے روز ثناللہ نے دم توڑ دیا۔1994 میں لائن آف کنٹرول پار کرتے ہوئے ثناللہ گرفتار ہوا بھارت میںثنااللہ پر آٹھ مقدمات بنائے گئے۔ 1999سے جموں کی جیل میں قید تھے انھیں کشمیر میں عسکریت پسندی کے جرم میں ملوث ہونے کے الزام میں عمر قید کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔
Sanaullah Ranjha
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی جیل میں ساتھی قیدی کے تشدد سے انتقال کر جانے والے پاکستانی قیدی ثنااللہ رانجھا کی میت پاکستان پہنچ چکی ہے۔اس وقت بھارتی جیلوں میں پاکستان کے 200سے زائد قیدی جبکہ پاکستان میں بھارتی ماہی گیروں سمیت 400سے زائد افراد قید ہیں۔سربجیت سنگھ کی موت سے ٹھیک ایک دن بعد پاکستانی قیدی ثناللہ پر حملہ ہونا اور بھارت کا سربجیت سنگھ کو ہیرو بنا کر پیش کرنا ۔۔۔امن کی آشا کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے منہ پر تمانچا ہے۔بھارتی میڈیا نے تو روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چودہ معصوم جانیں لینے والے بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ کے جیل والے واقعے کو قتل کو سازش قرار دیا اور بھارت کی ایجنسیوں کے آلہ کار سربجیت کو دنیا میں ہیرو بنا کر پیش کیا۔اس ”کار خیر” میںپاکستانی میڈیا نے کچھ اس طرح سے حصہ ڈالا کہ پاکستانی قیدی ثنااللہ جسے سربجیت کے بدلے میں باقاعدہ حملہ کروا کہ مارا گیا اس واقعہ پر پاکستانی میڈیا نے چپ کا روزہ رکھ لیا۔
بھاررتی وزیراعظم نے درجنوں جانین لینے والے سربجیت کو بھارت کو ”بہادر لعل” قرار دیا۔ بھارتی کی تمام سیاسی پارٹیوں کی قیادت اپنے جاسوس کی تدفین کی رسومات میں شرکت بھی کرتی ہے بھارتی حکومت اپنے جاسوس کو سرکاری اعزاز کے ساتھ بھی دفناتی ہے اور کھلم کھلا سربجیت سنگھ کو ہیرو بنا کر بھی پیش کرتی ہے اس کے اہل خانہ کو ایک کروڑ روپے بھی دیتی ہے.
جب کہ دوسری طرف ہم اپنے پاکستانی قیدی ثناللہ کو پہچاننے سے انکاری پر ہیں میڈیا اس کی خبر چلانے کے لئے تیار نہیں کوئی حکومتی نمائندہ ثنااللہ کے اہل خانہ سے تعزیت کرنے نہیں پہنچتا ۔۔۔ اس کے مقابلے میں بھارتی حکومت اپنے جاسوس کو ہیرو بھی بناتی ہے اور بھارتی میڈیا پوری دنیا کو بڑے فخر سے دکھاتا بھی ہے۔۔۔ بھارت ہمارے منہ پر تمانچے مارتا جا رہا ہے اور ہم اس وقت بھی امن کی آشا کا ڈھول گلے میں لٹکائے پھر رہے ہیں۔