پشاور (جیوڈیسک) خیبر پختونخوا میں داخلہ اور قبائلی امور کے محکمے نے جولائی 2013ء میں ڈیرہ اسماعیل خان میں جیل توڑنے کے واقعے پر بدھ کے روز سات پولیس اہلکاروں کے خلاف شوکاز نوٹس جاری کیے ہیں، اور انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ نوٹس کے جواب میں سات دن کے اندر اندر اپنا مؤقف واضح کریں ان اہلکاروں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر وہ ان ہدایات پر عمل کرنے میں ناکام رہے تو انہیں قانون کے تحت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس محکمے کی جانب سے جاری کیے گئے ایک ہینڈ آؤٹ کے مطابق وزیراعلی نے حکم دیا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل توڑنے کے واقعے پر ایک سرکاری انکوائری کی رپورٹ میں نامزد جیل اور پولیس حکام کے خلاف ضروری کارروائی کی جائے۔ ہینڈآؤٹ کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی سیکریٹری ڈاکٹر حماد اویس آغا اور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن، مالاکنڈ کے چیئرمین فضلِ ربّی پر مشتمل دو رکنی انکوائری کمیٹی جولائی 2013ء کے واقعہ پر اپنی تحقیقات کے نتائج حکومت کو پیش کیے تھے، جس میں پولیس اور جیل کے متعلقہ اہلکاروں کو نامزد کیا گیا تھا۔
مذکورہ ہینڈ آؤٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعلی نے ان اہلکاروں کے خلاف محکمانہ یا تادیبی کارروائی کا حکم دیا تھا۔ جن اہلکاروں کے خلاف شوکاز نوٹس دیے گئے ہیں، ان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے سابق ڈی ایس پی (ہیڈکوارٹرز) عبدالغفور جو اب ڈی ایس پی (سی ٹی ڈی) پشاور کے عہدے پر تعینات ہیں؛ سابق ڈی ایس پی (سٹی) ڈیرہ اسماعیل خان صلاح الدین، جو اس وقت بنوں میں ایس پی (سی ٹی ڈی) کے عہدے پر خدمات انجام دے رہے ہیں؛ ڈیرہ اسماعیل خان کے سابق ایس پی (ایلیٹ فورس) توحید؛ ڈیرہ اسماعیل خان کے لائن آفیسر نور اسلم؛ ریزرو انسپکٹر عمر دراز خان؛ ڈیرہ اسماعیل خان میں کنٹونمنٹ پولیس اسٹیشن کے سابق ایس ایچ او محمد نواز خان اور ڈیرہ اسماعیل خان سینٹرل جیل کے سابق سپریٹنڈنٹ غلام ربّانی شامل ہیں۔
اس ہینڈآؤٹ کے مطابق یہ اہلکار ڈیرہ اسماعیل خان جیل کی حفاظت کے ذمہ دار تھے، لیکن وہ اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں ناکام رہے، اور اس طرح سینکڑوں خطرناک قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، جس سے صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو خطرات لاحق ہیں۔ سرکاری ہینڈآؤٹ کا کہنا ہے کہ ان پولیس اہلکاروں کو بتایا گیا ہے کہ وہ اس نوٹس کا تحریری جواب سات دن کے اندر اندر مجاز اتھارٹی کو جمع کرائیں، اور اگر ایسا نہ کیا تو پھر ان کے خلاف یکطرفہ کارروائی کی جائے گی، جس کے تحت انہیں ملازمت سے ہمیشہ کے لیے برطرف کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جیل خانہ جات کفایت اللہ خان کو جیل کے 67 اہلکاروں کے خلاف کاروائی کی ذمہ داری دی گئی ہے، جنہیں جولائی 2013ء کے واقعہ کا ذمہ دار پایا گیا تھا۔