ذیابیطس سے بچاؤ کیلئے کھانے اور سونے کی عادت بدلیے

Diabetes

Diabetes

ذیابیطس ایک موروثی مرض ہے۔ اس مرض سے بچائو کیلئے کھانے پینے اور سونے جاگنے کی عادات کو بدلنا ہوگا۔ شوگر ٹیسٹ وقتاً فوقتاً کرواتے رہنا چاہئے، جب ٹیسٹ میں گلوکوز کی مقدار ایک مقررہ حد سے تجاوز کر جائے تو اس کا مطلب ہے ذیابیطس کا مرض لاحق ہو چکا ہے۔

متوازن خوراک، ورزش، صحت مند طرز زندگی کے ذریعے اس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے، کیونکہ ادویات کے ساتھ ساتھ صحت مند طرز زندگی بھی اس مرض کو کنٹرول رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ذیابیطس عمر کے کسی بھی حصے میں لاحق ہو سکتی ہے۔ ذیابیطس میں مبتلا افراد صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار مقررین نے میر خلیل الرحمن میموریل سوسائٹی اور نوونارڈسک پاکستان کے زیر اہتمام خصوصی پبلک ہیلتھ سیمینار بعنوان ’ذیابیطس کے ساتھ بہتر زندگی، بروقت تشخیص، علاج آسان‘ میں کیا گیا تھا۔ سیمینار میں پروفیسر ڈاکٹر عزیز الرحمن، پروفیسر ڈاکٹر محمد علی، پروفیسر ڈاکٹر تانیہ بٹ، ڈاکٹر خدیجہ عرفان، ڈاکٹر محمد علی، منو بھائی، ڈاکٹر جائدہ منظور شامل تھیں۔

راشد رفیق بٹ نے کہا کہ یہ سیمینار عوام میں آگاہی پھیلانے کے لئے منعقد کیا گیا ہے اور یہاں پر تمام ماہرین موجود ہیں جو لوگوں کو ذیابیطس کے متعلق معلومات فراہم کریں گے، تاکہ عوام میں آگاہی پھیلائی جائے۔ پروفیسر ڈاکٹر عزیز الرحمن نے کہا کہ شوگر ایک ایسا مرض ہے جس سے احتیاط کے ذریعے بچا جا سکتا ہے۔

خوراک کی زیادتی، ورزش میں کمی اور خون میں گلوکوز بڑھنے کے باعث یہ مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ کچھ عرصہ بعد اپنا بلڈ شوگر ٹیسٹ کر لیا جائے، تاکہ علم ہو کہ ذیابیطس کا مرض لاحق تو نہیں ہو گیا ہے۔ ٹیسٹ میں گلوکار کی مقدار ایک مقررہ حد سے زیادہ آئے تو اس کا مطلب ہے ذیابیطس کا مرض لاحق ہو گیا ہے اور پھر مستند ڈاکٹر سے بغیر وقت ضائع کئے علاج شروع کروا لیا جائے اگر ہمیں اس مرض سے بچنا ہے، تو ہمیں آج ہی سے اپنے بچوں کی کھانے پینے کی عادات کو بدلنا ہوگا اور مناسب وزن رکھنا ہوگا۔

اس کے علاوہ جن افراد کو ذیابیطس کا مرض لاحق ہو گیا ہے تو متوازن خوراک، ورزش اور صحت مند طرز زندگی کے ذریعے اس کو کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے کیونکہ شوگر کے مرض میں صرف ادویات ہی اس کا کنٹرول میں نہیں رکھتی ہیں، بلکہ صحت مند طرز زندگی کا اس میں بہت اہم کردار ہے۔

ذیابیطس کا مرض لاحق ہونے کے 10سال تک یہ مرض کچھ نہیں کہتا ہے، تاہم پرہیز ضروری ہے لیکن اگر پرہیز نہ کیا جائے تو اس مرض کے باعث گردے فیل ہو جاتے ہیں۔ دل کے دورے کے آثار بڑھ جاتے ہیں، فالج ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں، غرض جسم کا ہر اعضاء اس سے متاثر ہوتا ہے۔

ابھی تک پوری دنیا میں کوئی ایسی ریسرچ کامیاب نہیں ہوئی ہے، جس میں کہ ذیابیطس کے مستقل علاج کا پتہ چل سکے۔ البتہ اگر آپ کو یہ مرض لاحق ہو گیا ہے تو اس کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور صحت مند زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ یہ مرض عمر کے کسی بھی حصہ میں لاحق ہو سکتا ہے۔

اس کے لیے کوئی خاص عمر ضروری نہیں ہے۔ جب لبلبہ جس میں انسولین کی مناسب مقدار نہیں بنا پاتا تو ذیابیطس کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ یہ مرض موروثی طور پر بھی لاحق ہو سکتا ہے۔ اس کو ملٹی فیکٹوریل کہتے ہیں اور یہ باقی بیماریوں سے تھوڑی الگ ہے۔ کیونکہ باقی وارثتی بیماریوں کو لاحق ہونے سے نہیں روکا جا سکتا ہے مگر اس بیماری کو احتیاط اور متوازن طرز زندگی سے بدلا جاسکتا ہے۔

اس بیماری کا علاج کرتے ہوئے بہت سی چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ بچوں اور بڑوں کی ذیابیطس میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں میں غلط رجحان پایا جاتا ہے کہ ذیابیطس کے مریض جب انسولین استعمال کرتے ہیں تو یہ آخری مرلحہ ہوتا ہے جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے اس بات کا تعین ڈاکٹر کرتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر تانیہ بٹ نے کہ کہ جب والدین کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ان کے بچے کو ذیابیطس کا مرض لاحق ہوچکا ہے تو ان کے چہرے پر بہت مایوسی دکھائی دیتی ہے۔ جب انسولین ایجاد نہیں ہوئی تھی تب بہت سے بچے انسولین نہ لگنے کے باعث موت کا شکار ہو جاتے تھے مگر انسولین آنے کے بعد کافی تبدیلی آ چکی ہے۔

اگر ہم ترقی یافتہ ممالک میں دیکھیں تو وہاں پر جن بچوں کو ذیابیطس کا مرض لاحق ہوتا ہے ان کے والدین کو تمام پیچیدگیوں سے باخبر کیا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ حل بھی بتائے جاتے ہیں۔ اکثریت کی ذیابیطس انسولین سے کنٹرول ہوتی ہے۔