مذاکرات یا بے رحم آپریشن

Terrorism

Terrorism

سانحہ ٔ اسلام آباد کے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ 3 بڑی گاڑیاں F8 اسلام آباد کچہری میں بخشی خانے کی طرف داخل ہوئیں ان میں 8 نوجوانوں کی لمبے بال اور چھوٹی داڑھیاں تھیں انہوں نے اپنے گرد لپیٹی چادریں اتاریں اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور گولیاں برسنا شروع ہوگئیں ان کے راستے میں جو بھی آیا اپنے ہی خون میں نہا کر زمین پر گرتا چلا گیا جان بچا کر بھاگنے والوں میں پولیس اہلکار پیش پیش تھے۔۔۔

دہشت گردی کے اس واقعہ کے ساتھ ہی حکومت، عوام اور مذاکراتی ٹیموں کا اطمینان رخصت ہو گیا گذشتہ چند ہفتوں کے اعصاب شکن مذاکراتی عمل میں پیش رفت کیلئے لوگ دعائیں کرتے رہے خدا خدا کرکے جب طالبان نے غیرمشروط طور پر ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا تو سب نے سکھ کا سانس لیا کہ اب دہشت گردی میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کا سلسلہ رک جائے گا لیکن تازہ ترین سانحہ نے پوری قوم کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔

ہر کوئی اپنی اپنی رائے دے رہا ہے لیکن طالبان نے اس سے لاتعلقی کااظہار کیا ہے۔۔۔سانحہ ٔ اسلام آباد کے بعد ذہن میں فوری طور پر 3 سوال و شبہات ابھرتے ہیں اولاً ! تحریک ِ طالبان کا تمام گروپوںاثر نہیں رہاکچھ لوگ ان سے بالا بالا قتل و غارت کررہے ہیں ثانیاً ! تحریک ِ طالبان نے حکومت، مذاکراتی ٹیموں اور پاکستان کی عسکری قیادت سے دھوکہ کیا ہے اس ضمن میں بیشتر پاکستانی سیاستدانوںکی یہی رائے ہے مزیداً ! کچھ اسلام دشمن طاقتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں امن و امان ہو وہ طالبان کی آڑ میں دہشت گردی کرکے حالات خراب کررہی ہیں۔۔۔۔

شنید ہے کہ اس وقت مذکراتی کمیٹیوں کے پیش ِ نظر یہی تین سوال ہیں جن کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ملک میں پے در پے دہشت گردی کے واقعات، درجنوںبے گناہوں کی شہادت اور عوام میں خوف وہراس کے باوجود میاں نواز شریف اور عسکری قیادت کی اب بھی خواہش ہے کہ یہ حساس معاملہ مذاکرات سے ہی حل کیا جانا چاہیے تازہ ترین اطلاع کے مطابق حکومتی مذاکراتی ٹیم نے مذاکرات کو ایک بارپھر آگے بڑھانے کیلئے تجاویز اور حکمت ِ عملی تیار کرلی ہے۔

Taliban

Taliban

جلدہی طالبان کی نامزد کردہ کمیٹی سے ملاقات متوقع ہے جس میں تمام معاملات پر غور وخوض کیا جائے گا۔جہاں تک اس خیال کا تعلق ہے کہ تحریک ِ طالبان کا تمام گروپوں اثر نہیں رہاکچھ لوگ ان سے بالا بالا قتل و غارت کررہے ہیںاس میں حقیقت بھی ہو سکتی ہے اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان میں اس وقت طالبان کے 100 سے زائد گروپ کام کررہے ہیں ان میں مختلف مسالک، مختلف مزاج اور مختلف نظریات کے لوگوں کا ہونا عقل سے بعید نہیں ان کا ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا ہونا، ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اب تحریک ِ طالبان سب کی نمائندہ ہونے کا دعویٰ تو کرتی ہے لیکن حقیقت کیا ہے ؟ کوئی نہیں جانتا۔۔۔

دوسری بات کہ تحریک ِ طالبان نے حکومت،مذاکراتی ٹیموں اور پاکستان کی عسکری قیادت سے دھوکہ کیا ہے یہ بات آدھی سچ بھی ہو سکتی ہے حکومت اور طالبان کی مذاکراتی ٹیموں کے درمیان گفت و شنید جاری تھی کہ 22اہلکاروںکی شہادت کا واقعہ آ گیا لیکن اس کی ذمہ داری تحریک ِ طالبان نے قبول کرلی اگروہ ایسا نہ بھی کرتے تو کوئی کیا کر سکتاتھا اس لئے دھوکہ دینے والی بات ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی یعنی ففٹی ففٹی والا معاملہ ہے اگر طالبان سانحہ ٔ اسلام آباد سے لاتعلقی کااظہارکررہے ہیں تو شکوک و شبہات کے باوجود اس پر یقین کرلینا چاہیے کہ نتیجہ خیز مذاکرات ان کے اپنے مفاد میں ہیں۔یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ بیشتراسلام دشمن قوتوں امریکہ، بھارت اور اسرائیل نے پاکستان کوآج تک دل سے تسلیم نہیں کیا وہ پاکستان کو نقصان پہچانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں جب سے پاکستان ایٹمی قوت بنا ہے۔

ان کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہیں اس لئے غالب خیال یہ ہے کہ پاکستان کے حالات خراب کرنے میں اسلام دشمن طاقتوںکا کلیدی رول ہے اسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔۔۔مذاکرات کا سلسلہ میں انہی تین نکات کو مرکز و محور بنایا جارہا ہے اب سننے میں آرہاہے کہ حکومت طالبان مذاکراتی عمل میں فوج کو بھی شامل کیا جارہاہے تاکہ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنایا جا سکے اس ساری صورت ِ حال سے طالبان کو حالات کی سنجیدگی کااحساس کرنا چاہیے جن لوگوں کا یہ مؤقف ہے کہ فوجی اپریشن مسئلہ کا پائیدار حل نہیں دہشت گردی کے مسلسل واقعات نے انہیں اس دوراہے پر لاکھڑا کر دیا ہے کہ وہ اپنے نقطہ ٔ نظر پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں۔

حالات بتاتے ہیں مذاکرات یا فوجی اپریشن جو بھی فیصلہ ہوا ایک بات طے ہے کہ جولائی 2014ء تک سارا منظر اور منظر نامہ واضح ہو جائے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ اب دہشت گردی کا دی اینڈ ہونے والا ہے شنید ہے کہ” امن ہر قیمت پر” کی حکمت ِ عملی تیار کر لی گئی ہے اور میاں نواز شریف اور عسکری قیادت میں اس بات پر مکمل اتفاق ہو گیا ہے کہ امن کے راستے میں حائل رکاوٹوںکو کچل دیا جائے امن کے قیام کیلئے مذاکرات یا بے رحم اپریشن۔۔۔اس کا فیصلہ طالبان نے کرنا ہے اس سلسلہ میں حکومت ِ پاکستان اورعوام نے بڑی قربانیاں دی ہیں اب وقت بتائے گا طالبان کیا فیصلہ کرتے ہیں یہ فیصلہ لہو سے لکھا جائے گا یا سفید پرچم پر امن کی فاختہ مسکرائے گی یہ تاریخ بتائے گی۔

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی