کہا جاتا ہے کہ پرانے زمانے میں اگر کسی بھلے اِنسان کو کوئی پاگل کُتا کاٹ لیتا تو اِس کا علاج لوہار کیا کرتا تھا اور پاگل کُتے کے کاٹے کا لوہار کے پاس سیدھا سادہ سا ایک طریقہ علاج یہ تھا کہ لوہار ایک لوہے کی سلاخ لیتا اور اِسے دہکتے ہوئے انگاروں پر رکھ دیتا اور جب سلاخ خُوب دہک کر بالکل لال سُرخ ہو جاتی تو اِس سے مریض کے زخم کو داغ دیتا مریض اگر سخت جان ہوتا تو بچ جاتا ورنہ عام طور سے تو یہی ہوتا کہ نہ مرض رہتا نہ مریض۔ اگرچہ ہمارے یہاں کچھ عرصے قبل تک حکومت بھی اُن لوگوں کے ساتھ ایسا ہی کیا کرتی تھی جو دہشت گردی میں ملوث ہوتے یاپائے جاتے تھے اگرچہ آج بھی دہشت گرد تعداد میں کچھ زیادہ ہیں اور یہ اپنی پوری شدت پسندی کے ساتھ سارے مُلک میں سوات سے لے کر کراچی تک موجود ہیں مگر آج حالات بالکل مختلف ہوگئے ہیں اَب دہشت گرد یہ مانیں یا نہ مانیں…؟
مگر حقیقت تو یہی ہے کہ آج حکومت نے اپنی تمام تر قوت (پرانے زمانے کے لوہار کی طرح انگارے اور لوہے کی سلاخ) رکھنے کے باوجود بھی (دہشت گردی جیسے مرض میں مبتلا مریضوں کے علاج کے لئے) اپنی کئی اندرونی اور بیرونی مصالحتوں کی بنا پر اپنی اعلی ٰ ظرفی کا مظاہرہ کیاہے اور اِن کار دیر پا علاج یہ ڈھونڈ نکلا ہے کہ فی الحال اِن سے لوہار بن کر نہیں بلکہ دانشمندوں کی طرح مذاکرات سے اِن کے مرض کا علاج کیا جائے ۔یوں اِس بناپرجب حکومت نے پندرہ بیس روز قبل (جیسے پاگل کُتے کے کاٹے مرض میں مبتلا) شدت پسندوں سے مذاکرات شروع کئے تھے تو خود حکومت واپوزیشن سمیت عام شہریوں میں بھی یہ تصوراُبھرکرسامنے آنے لگا تھا کہ اَب شدت پسند (دہشت گرد عناصر) فائر بندی پر مائل ہوں گے اور امن کے خاطراپنی دہشت گردی فوری طورپر ختم نہیں تو کم ازکم اِسے کنٹرول تو ضرور ہی کرلیں گے مگر جیسے ہی مذاکرات کی گاڑی نے اپنے ٹریک پر چلنا شروع کیا تو اُدھر ہی دہشت گردوں نے اپنی دہشت گردی میں بھی اضافہ کر دیا اور آج تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ حکومت اور حکومتی مذاکراتی ٹیم تو پُرامن مذاکرات کی لولی پاپ کو مزے مزے سے چاٹنے میں ہی لگی ہوئی ہے تواِسی دوران دوسری طرف دہشت گردسانس لینے اور آرام کرنے کے بعد اپنی اُسی طرح کی دہشت گردی سے باز نہیں آرہے ہیں کہ جیسی یہ دہشت گردی مذاکرات سے پہلے کیا کرتے تھے۔
گزشتہ سولہ سترہ دِنوں میں دہشت گردوں کی جانب سے پندرہ بڑے حملے ہوچکے ہیں خواہ وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز پر حملہ ہویا پشاورمیں پیش آئے نو دہشت گردی کے واقعات سمیت کراچی کے رزاق آباد میں پولیس بس اور موبائل پر ہونے والا پولیس کی تاریخ کا سب سے بڑا حملہ اِن سب واقعات کے ذمہ دار یہی لوگ یا اِن کے وہ ضدی گروپس ہیں جو مذاکرات کے جھولے میں تو سوار ہیں مگر دوسری جانب یہی لوگ اپنی دہشت گردی سے معصوم اور بے گناہ اِنسانوں کو موت کی وادی میں دھکیل کر اپنے دہشت گردانہ عزائم کی تکمیل بھی چاہ رہے ہیں اَب شدت پسندوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں پر یہی کہا جاتا سکتا ہے کہ حدہوگئی ہے یارایک طرف شدت پسند مذاکرات کا ڈھونگ رچا کر حکومت کو بلیک میل کررہے ہیں تو دوسری طرف دہشت گردی میں بھی مصروف ہیں۔ آج دنیا یہ دیکھ بھی رہی ہے اور اچھی طرح سے سُن اور جان بھی رہی ہے کہ حکومت نے شدت پسندوں سے مذاکرات شروع کرکے مصالحتوں کے جس آسمان کو چھولیا ہے یہ اِس کی ہی ہمت اور اِس کا ہی ظرف ہے کہ اِس کے باوجوس بھی وہ شدت پسندی کے رنگ میں رنگے دہشت گردوں کو مذاکرا ت کی میز پر لا کر اِنہیں سیاسی دھارے میں شامل کرنا چاہتی ہے اور پُرامن طریقے سے ساتھ لے کر چلناچاہتی ہے۔
Kalima
مگر آج بہر حال ….!حکومتی حکمتِ عملی اور مذاکراتی عمل اپنی جگہہ کچھ بھی ہوں مگر دوسری جانب یہ بات اپنے اندر بے شمار سوالات لئے ہوئے ہے اور اِن سوالات میں سے ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ مذاکراتِ امن میں دہشت گردوں کی دہشت گردی ٹھیک نہیں ہے…؟آج موجودہ حالات میں شدت پسند اپنی جس شدت پسندی کے سہارے یہ درسِ عام کرنا چاہ رہے ہیں کہ دینِ اسلام کے حقیقی ماننے والے یہی لوگ ہیں اور یہ ہر حال میں سرزمینِ پاکستان پر شریعت کے نام پر اپنی شدت پسندانہ شریعت کا نفاذ کرنا چاہتے ہیں تو اِن کی اِس خودپسندانہ شریعت کی ہر سطح پر مخالفت کی جائے گی کیوں کہ آج بالخصوص دین اسلام کے ماننے والے اور اِس کی تعلیمات پر چلنے والے سچے کلمہ گو مسلمان ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ادیان کے پیروکار اور ذی شعور اِنسان بھی یہ بات اچھی طرح سے مانتے اور جانتے ہیں کہ اسلام زور اور جبر اور طاقت کے بدولت زبردستی نہیں پھیلاہے یہ تورہتی دنیا تک کا ایک ایسادین ہے جس نے اخلاص و محبت سے لوگوں کو اپناگرویدہ بنایاہے اور اِن کے درمیان قرآن و سُنت کی ایسی عظیم کتابیں رکھ دیںہیں جو تاقیامت بنی نوع اِنسان کے لئے رُشدوہدایت کا سرچشمہ ہیں۔ اَب یہ کیسے شدت پسند ہیں جو قرآن و سُنت کو بالائے طاق رکھ کر حکومتی رٹ کو چیلنچ کررہے ہیں اور دھونس و دھمکی سے اپنی شدت پسندانہ شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں۔
یقینا یہ خبرحکومت اور حکومتی مذاکراتی ٹیم سمیت اپوزیشن اور ساری پاکستانی قوم ہر ذی شعوراِنسان کے لئے بھی بڑی حیران اور پریشان کُن ہے کہ ”طالبان نے چترال میں صدیوں سے آباد اسماعیل فرقے کے قبائل کے خلاف بھی کھلم کھلا مسلح جدوجہد کا اعلان کر دیا ہے طالبان نے اپنی ویب سائٹ پر جاری 50 منٹ کی وڈیو میں کیلاش کے قبائلی افراد کو جو اِن کے خیال میں اَب تقریباََ 3500 نفوس پر مشتمل ہیں اِن لوگوں سے کہا ہے کہ وہ اسلام قبول کرلیں یا مرنے کے لئے تیار ہو جائیں تا ہم طالبان نے ایک دعویٰ یہ بھی کیا ہے کہ کیلاش کے لوگوں کی بڑی تعداد اسلام قبول کر چکی ہے اور جو اِس شرف سے رہ گئے ہیں وہ اسرائیل یا کسی اور کے ایجنڈ نہ بنیں یہی اِن کے حق میں بہتر ہو گا وہ اسلام قبول کرلیں ورنہ ورنہ مرنے کے لئے تیار ہو جائیں اور اِس کے ساتھ ہی طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم مذاکراتی عمل بھی جاری رکھیں گے اور اپنی کارروائیاں بھی کرتے رہیں گے۔ جبکہ شدت پسندوں کی ایسی ہی دھمکیوں اور کارروائیوں کے خلاف حکومت بارہاکہہ چکی ہے کہ مذاکرات اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے ہیں، ہر حال میں دہشت گردوں کو اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں بند کرنی ہوں گیں اور اگر اُنہوں نے اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں بند نہ کیں تو پھر حکومت کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا۔
اور پھر کہیں وہی کچھ نہ ہوجائے جس کا مُلک کے اندراور باہرسے یہ خدشہ ظاہر کیا جارہاہے کہ اگر شدت پسند دہشت گردوںاور اِن کے گروپس کی جانب سے دیدہ ودانستہ ہ مذاکرات سپوتاژ کرنے کے لئے دہشت گردی کی کارروائیاں نہ رُکیں تو پھر حکومت اِن کے خلاف فوجی آپریشن کرنے میں حق بجانب ہوگی…!اَب ایسے میں راقم الحرف کا خیال یہ ہے کہ حکومت کے مذاکراتی عمل کو شدت پسندحکومتی کمزوری سمجھ رہے ہیں اور یہ دہشت گردی کی کارروائیوں سے باز بھی نہیں آرہے تو پھر آج حکومت کو بھی زمانہ قدیم والے لوہارکی طرح کُتے کے کاٹے کا علاج دہکتی ہوئی لوہے کی سلاخ سے ہی کرناضروری ہو گا پھر اِس طرح نہ مرض رہے گااور نہ ہی مریض.