عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہونے کے باعث میں قطر میں ہونے والی معاشی ترقی اور انفراسٹرکچر میں بہتری کا چشم دید گواہ ہوں،آج سے بیس سال قبل ملک قطر کو چھوڑ کر جانے والا فرد اب اگر قطر کی سیاحت کو آئے تو ورطہ حیرت بن جائے گا کہ یہ وہ قطر نہیں جو آج سے دو دہائی قبل چھوڑا تھا۔اس کی وجہ یقینا وہ ترقی اور سیاسی تبدیلی ہے جس کا سہرا موجودہ حکومت کے سر جاتا ہے۔جزیرہ نما قطر کی خلیجی ممالک میں اہمیت کئی حوالوں سے اسے ممتاز کئے ہوئے ہے،مثلاً تمام خلیجی ممالک میں شرح خواندگی کا معیار سب سے بلندقطر کا ہے،فی کس آمدنی جو کہ کسی بھی ملک کے افراد کے معیار زندگی کی عکاسی کرتی ہے اس میں بھی قطر کا نام خلیجی ممالک میں صف اول میں شمار کیا جاتا ہے،2006 میں پندھرویں ایشین گیمز کی میزبانی کا سہرا بھی قطر کے سر جاتا ہے کیونکہ تاحال کوئی بھی خلیجی ملک ایشین گیمز کے انعقاد کو ممکن نہیں بنا پایا،اور اب 2022 کافیفا فٹ بال ورلڈکپ کی میزبانی کا شرف بھی قطر کو ہی حاصل ہو رہا ہے۔یقینا فیفا کپ کا انعقاد کھیلوں کی دنیا میں قطر کو ایک اہم مقام دلانے میں ممد ومعاون ہو گا۔
علاوہ ازیں خلیجی ممالک ،عالم اسلام اور بین الاقوامی سطح پر ہمہ وقت مسکراتے چہرے کے مالک صاحب السموشیخ تمیم بن حمد الثانی کی شخصیت نے بھی قطر کو منفرد مقام دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔صاحب السمو شیخ تمیم بن حمد الثانی نے 2015 میں زمام اقتدار سنبھالا،تمیم کے حصہ میں یہ تخت نشینی ان کے والد شیخ حمد بن خلیفہ الثانی کے رضاکارانہ انتقال اقتدارکے سبب آئی ،پر امن انتقال اقتدار بادشاہی نظام حکومت میں ایک اعلیٰ مثال خیال کی جاتی ہے۔حالیہ دنوں جب شیخ تمیم بن حمدالثانی پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی دعوت پر پاکستان تشریف لائے تو ان کا شایانِ شان ،فقید المثال،خاص الخاص اور شوکتِ کسریٰ سے استقبال کیا گیا۔انہیں اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔
وزیر اعظم عمران خان نے خود ان کا استقبال کیا،قطر ائیر ویز کے بوئنگ طیارے کی چھت پر دونوں ممالک کے پرچم کا لہرانا اور لہلہانا اس بات کی عکاسی تھا کہ ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات صرف سیاسی نوعیت کے ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کی مضبوطی،اخوت اور بھائی چارہ کی طرف بھی بڑھ رہے ہیں۔وزیر اعظم خود گاڑی چلاتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ وزیر اعظم ہائوس لائے ،یاد رکھئے گا کہ کسی بھی سربراہ سلطنت کے لئے گاڑی چلانا کوئی حقیر عمل نہیں ہے بلکہ یہ انتہائی پروٹوکول کے ساتھ ساتھ ایک لحاظ سے بالمشافہ ملاقات بھی ہوتی ہے جسے ڈپلومیسی کی زبان میںون ٹو ون بھی کہا جاتا ہے۔علاوہ ازیں دونوں سربراہان کو اس بات کا بھی موقع مل جاتا ہے کہ جو راز و نیاز وہ سب کے سامنے نہیں کرنا چاہتے ان کے اظہار کا بھی اسی دوران انہیں موقع مل جاتا ہے۔گویا یہ ایک بہتر ڈپلومسی ڈائیلاگ کی ایک بہترین قسم ہے۔
شیخ تمیم کے استقبال کے لئے تمام بڑی شاہراہوں کو شیخ تمیم کی قد آور پورٹریٹ سے بھی سجایا گیا تھا ،استقبال کی تمام تیاریاں دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ جیسا استقبال قطر میں عمران خان کا کیا گیا تھا ہم بھی انہیں اسی شان و شوکت سے خوش آمدید کہنا چاہ رہے ہیں۔امیر قطر کا یہ پاکستان کا دسرا دورہ ہے اس سے قبل وہ 2015میں بھی پاکستان کا دور ہ کر چکے ہیں۔مگر تب اور اب میں فرق اس لئے ہے کہ اُس وقت انہوں نے نیا نیا اقتدار سنبھالا تھا جبکہ حالیہ دورہ اس لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ انہوں نے اپنی سیاسی صلا حیتوںکے بل بوتے پر سیاسی بلوغت کی ان حدوں کو چھو لیا ہے جوکسی بھی عظیم لیڈر کے لئے ضروری ہوتا ہے۔
خاص کر دو سال قبل سعودی عرب ،بحرین اور یو اے ای کی طرف سے لگائی جانے والی اقتصادی پابندیوں کے بعد انہوں نے اپنی قوم کے اندر اعتماد کو بحال کیا ہے۔ میں اس بات کا چشم دید گواہ ہوں۔یہ شیخ تمیم کی سیاسی بصیرت اور قابلیت ہی تھی کہ جس کی وجہ سے قطر نے دیکھتے ہی دیکھتے زراعت،صنعت اور بین الاقوامی تجارت میں اپنا نام پید ا کر لیا،انہوں نے قطر کے لئے خود انحصاری سکیم کے لئے 9 ماہ کا عرصہ اپنی ٹیم کو دیا اور ان کی شبانہ روز محنت نے اس ہدف کو مقررہ حد سے پہلے حاصل کر کے ثابت کر دیا کہ ہم کسی سے بھی کم نہیں ہیں۔بلاشبہ یہ عمل قطر کی تاریخ میں سنہری حروف میںلکھا جائے گا۔اپنے انہیں اقدامات کی بدولت شیخ تمیم بن حمد الثانی کو شاہی خاندان کے افراد میں شباب میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے ۔ان کی سیاسی بصیرت اس بات کی بھی گواہ ہوگی کہ انہوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی ابتد ابہت کچھ سوچ بچار کے بعد ہی شروع کی ہوگی۔
انہوں نے یقینا پاکستان کو ایک پرامن ملک کی صورت میں دیکھتے ہوئے اس ملک میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہوگا جو دونوں ممالک کی معاشی ترقی میں ممدو معاون ثابت ہوگا۔قطر سے قبل سعودی عرب بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کا ری کے مختلف معاہدوں پر دستخط کر چکا ہے تاہم قطر نے 22 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لئے مختلف معاہدوں اور مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط کئے ہیں،جن میں بزنس،سیاحت،دیگر تجارتی معاملات اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لئے مل کر کام کرنا شامل ہے۔ صدر پاکستان نے انہیں اعلی ترین سول اعزاز”نشان پاکستان سے بھی نوازا۔وطن واپسی پر نور خان ائیر بیس پر شیخ تمیم بن حمد الثانی کو جے ایف 17تھنڈر اور مشاق طیاروں کے بارے میں بریفنگ بھی دی گئی۔میری دعا ہے کہ یہ دورہ پاکستان کے لئے خوش حالی اور اقتصادی ترقی کا پیش خیمہ ہو۔آمین