پشاور (جیوڈیسک) کوئی چار سو سال سے پشاور کے صرافہ بازار کے کاریگر اور تاجر ان قیمتی پتھروں کی رگڑائی ، پالش اور تجارت کرتے رہے ہیں ، جو شمال مغربی پاکستان کے پہاڑی علاقوں سے نکالے جاتے ہیں۔
مقامی تاجروں کے کاروبار کا 95 فیصد حصہ برآمدات سے جڑا ہوا ہے۔ اب صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت میں اس انڈسٹری کے تاجروں کا کاروبار تشویشناک حد تک کم ہو چکا ہے۔
کبھی وہاں دکانوں میں تاجر ہیرے ، زمرد اور یاقوت جیسے قیمتی پتھروں کی جانچ کرتے نظر آتے ، گاہکوں کی سبز چائے سے تواضع کی جاتی اور جگہ جگہ گھوم پھر کر چٹ پٹی اور مصالحے دار اشیائے خوراک بیچنے والے خوانچہ فروش بھی ہوتے ہیں۔ لیکن اب امن و امان کی خراب صورت حال کے پیش نظر کاروبار تیزی سے زوال کا شکار ہے۔
غیر ملکی گاہک اب اس بازار کا رخ نہیں کرتے۔ پاکستان میں قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کے ذخائر کی مالیت کئی ٹریلین ڈالر کے برابر ہے۔ اے ایف پی کے مطابق تاجروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں وہاں خاص کر امریکا ، تھائی لینڈ ، جرمنی اور دبئی سے تعلق رکھنے والے ، جو خریدار بڑی تعداد میں نظر آتے تھے۔
اب وہ زیادہ تر ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا سب سے اچھا حل یہ ہے کہ پاکستان کے دوسرے شہروں میں جیم سٹون انڈسٹری کے زیادہ سے زیادہ تجارتی میلوں کا اہتمام کیا جائے۔
اب تک جو نمائشیں ہو چکی ہیں ان میں کئی غیر ملکی گاہکوں نے بہت زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کیا ، خاص طور پر زمرد اور یاقوت جیسے قیمتی جواہرات کی خریداری میں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر جیم سٹون صوبے خیبر پختونخوا، شمال میں گلگت بلتستان کے علاقے اور وفاق کے زیر انتظام فاٹا کہلانے والے قبائلی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ خزانے ابھی تک تلاش نہیں کیے جا سکے۔