تحریر : رائو عمران سلیمان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے لیے دھمکی آمیزلہجہ کوئی نئی بات نہیں ہے امریکا کا ہر وہ شخص جسے بین الاقوامی سیاست سے تھوڑا بہت بھی لگائو ہے وہ بھی یہ ہی بات کررہاہے کہ پاکستان اس وقت دہشت گردی کو فروغ دے رہاہے ۔اس بیان کے بعد تو امریکا کویہ ہی جواب دیا جاسکتاہے کہ امریکا کوافغان جنگ اب خود لڑنا ہوگی پاکستان اس قدر کوششوں کے باوجودبھی الزام تراشیوں سے نہ بچ سکا ہے اور نہ ہی عالمی میڈیا میں پاکستان کی قربانیوں کو کوئی اہمیت دی جارہی ہے ،جس کی بنیاد ی وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومتوں کو دہشت گردی کے خلاف قربانیاں دینا تو آگئی ہیں مگر ان قربانیوں کا پوری دنیا میں اعتراف کروانا اور عالمی دنیا کو یہ بتانا نہیں آیاہے کہ پاکستان کس کس انداز میں ایک طویل عرصہ سے دہشت گردی کے خلاف اپنے مال اور جانوں کی قربانیاں دے رہا ہے۔
ہماری یہ حکومتیں جب پہلے روز حکومت سنبھالتی ہیں اسی روز سے اپنے اندرونی جھگڑوں میں پڑجاتی ہیں،ٹرمپ کے بیان کے بعد چین نے سب سے پہلے پاکستان کے دفاع میں جواب دیا مگر پاکستان سویا رہا ،روس نے بھی پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا مگر یہ کیا پاکستان سویا رہا ،ٹرمپ کے بیان کے بعد پاکستان کی حکومت کی جانب سے سولہ سترہ گھنٹے کی خاموشی ٹرمپ کے بیان سے زیادہ خطرناک رہی لگتا تھا کہ اس بیان سے پاکستان کے فارن آفس کو سانپ سونگھ گیا ہے، حالانکہ میری نظر میں اس بیان کا جواب پاکستان کی جانب سے دو گھنٹے کے اندر اندر دیا جاسکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوا بھلا ایک ایسا شخص سامنے کھڑے اس آدمی سے کیسے نظریں ملا کر بات کرسکتاہے جس نے اس کا قرضہ دینا ہو جس نے اپنا سب کچھ ہی اس کے پاس گروی رکھا ہو ،اوررہی چین اور روس کی بات تو جناب یہ اپنی مار کرکھانے والے لوگ ہیں ان ممالک میں مسلم لیگ نواز اورپیپلزپارٹی کے لوگوں کی اجارہ داری نہیں ہے یہاں کی حکومت اور اپوزیشن والے لیڈران ملکی سلامتی سے زیادہ کسی بھی چیز کو مقدم نہیں رکھتے۔
وزیرخارجہ خواجہ آصف نے ٹرمپ کے بیان کے بعد تقریباً 48 گھنٹے کے بعد ہمت پکڑی اور کچھ باتیں عوام کی امنگوں کے مطابق کرڈالی وہ بھی مرتے کیا نہ کرتے کے مترادف۔وزیرخارجہ کے عہدے کے لیے لگتا تو یہ ہی ہے کہ خواجہ آصف صاحب کے پاس کسی قسم کا تجربہ نہیں ہے جبکہ جو شخص اپنے ہی ملک میں موجود کسی بھی قسم کے جھگڑوں سے ہی نہ نکل سکے وہ بھلا خارجہ پالیسی کو کیا چلائے گا؟۔یعنی امریکی صدر کے بیان کے بعد ایوان میں آتے ہیں ریمنڈڈیوس کا بیان داغ دیا جبکہ اس موقع پر ایسے بیان کی کیا ضرورت تھی مگر موصوف نے اس نازک ترین صورتحال پر بھی اپنے مخالف پیپلزپارٹی والوں کو رگڑا لگانے سے گریز نہ کیاجب کے نئے نویلے وزیرخارجہ صاحب کو بجائے پچھلے افسانے چھیڑنے کے اپنا موقف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر دینا چاہیے تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خواجہ آصف صاحب اس منسٹری کے ملنے کے باوجود خود اندورنی جھگڑوں سے الگ نہیں کرسکیں ہیں اسی لیے اپنے بیان میں ایک بار پھر سے سیاسی جماعتوں اور فوج پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی گئی ۔چونکہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں 2011 میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے آئی ایس آئی کی مدد سے ریمنڈ ڈیوس کو ملک سے نکلنے کا موقع دیا۔
دیکھا جائے تو خواجہ صاحب اس وقت جس عہدے پر اب براجمان ہیں انہیں اب اپنی پرانی روش کو خیر آباد کہہ دینا چاہیے اور اس قسم کی سوچ رکھنے کی بجائے اب انہیں اس ملک کی فوج اور دیگر اداروں کی عزت کرنا گی ۔ تین بار حکومتیں بنانے کے باجود بھی نواز شریف کی یہ عادت نہ گئی ہے کہ وہ کچھ سوچ سمجھ کر ملکی مفادکے لیے کوئی فیصلہ کرسکیں جس کسی نے اس کے لیے اچھی تقریرکی اسے وزیرریلوئے بنادیا جس کسی نے سب سے زیادہ ٹاک شوز میں حکومت کی تعریف کی وہ گورنر بن گیا اور جو کوئی فوج اور اداروں پر سہی معنوں میں بیان بازیاں کرتاہے اسے وزیرخارجہ او ر وزیردفاع بنادیا گیا ۔میں سمجھتا ہوں کہ نواز حکومت کے پاس ویژن نام کی کوئی چیز نہیں ہے کوئی پلاننگ نہیں ہے کہ ملک کو کس طرح چلانا ہے اور کس طرح سے اس ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر ڈالنا ہے ،یہ ہی وجہ ہے کہ وزیرخارجہ کے عہدے پر خود ہی نواز شریف صاحب چار سال تک برآجمان رہے اور کسی کوئی اس قابل نہ سمجھا کہ اسے وزیرخارجہ بنادیا جائے یا پھر وہ اپنی جماعت میں سے کسی کو اس قابل یا پڑھا لکھا نہیں سمجھتے تھے کہ اسے اس بھاری بھرکم عہدے پر بٹھاتے حالانکہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ تو خود ہی بہت مصروف ترین عہدہ ہے اس پر موصوف وزیرخارجہ بھی ہو؟۔ اب چونکہ نئے وزیراعظم شاہد خاکان عباسی صاحب میں نوازشریف جتنی خوبیاں نہیں ہے اس لیے یہ عہدہ ان سے الگ کرکے ایک ایسے شخص کے حوالے کردیا گیاہے جو چار سال سے حکومتی دفاع میں نہ تو سیاسی جماعتوں کو بخش رہاہے اور نہ ہی اس کے نزدیک ملکی ادارے کوئی اہمیت رکھتے ہیں جبکہ اس منصب کے لیے ایک ایسے ذمہ دار شخص کی ضرورت ہے جو بین الالقوامی سطح پر ملک کے تعلقات کو بہتر بنانے کا ہنر جانتاہو،جو امریکا سمیت پوری دنیا کو بتاسکے کہ پاکستان وہ ملک ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف کسی بھی ملک سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اور ستر ہزار سے زائد جانوں کو قربا ن کیا ہے اور ابھی تک ان قربانیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
لہذا وزیرخارجہ صاحب کو چین ،روس کی حمایت کا شکریہ اداکرنے کے ساتھ انہیں امریکا سمیت پوری دنیا میں اس بات کو اجاگرکرناہوگا کہ پاکستادہشت گردی کو فروغ دینے والا ملک نہیں ہے بلکہ یہ وہ ملک ہے جو خود اس آگ میں جل رہاہے اوراسی پاکستان کی کوششوں سے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ رہی جس نے ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے ذریعے دنیا کو ایک امن کا پیغام دیاہے ،دوسری جانب بھارت جو کچھ کنٹرول لائن پر کررہاہے اسی انداز میں وہ امریکا کا نمبرون اتحادی اور اس کی چمچہ گیری کرتے ہوئے پاکستان پر عالمی دبائوبڑھانے کی کوشش کررہاہے ،ان تمام باتوں کا ایک ہی حل ہے جس کے لیے میں سمجھتاہوں کہ آپ کبھی بھی اندرونی سیاسی اہم آہنگی اور ملک میں اقتصادی استحکام لائے بغیرعالمی دبائوکا مقابلہ نہیں کرسکتے ،اور یہ ہی اس ملک کی سب سے بڑی کمزوری رہی ہے پاکستان کی موجودہ اور سابقہ حکومتوں کی ان روایتی سیاستدانوں کو ڈالروں کے عوض دوسروں کی جنگوں میں ملک اور عوام کو جھونکنا تو آتاہے مگرکسی بھی مشکل وقت میں ملک کی عوام کی سرپرستی کرنا ان عیاش طبع حکمرانوں کے بس کا روگ نہیں ہوتا۔پاک فوج نے امریکا کو یہ کہہ کر قوم کو ایک اچھا دیا کہ پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا جائے انہیں امداد نہیں چاہے ،جبکہ یہ کام تو سول حکومت کا ہے جو امریکا کی ایڈ بند کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے پاکستان کو امریکی جنرل نکلس کے اس بیان کا بھی جواب دینا چاہیے جو کہتا ہے کہ طالبان کے تمام تر کمانڈر پاکستان کے شہر پشاور میں رہائش پزیر ہیں ان تمام بیانات کی نفی کرنا ایک مظبوط خارجہ پالیسی کی مرہوں منت ہے امید ہے کہ نئے وزیرخارجہ کو اس ادارے میں بیٹھے پرانے افسران ہی کوئی راہ دکھادیں جبکہ حکومت کے پاس یہ چند ماہ موجود ہیں 2018کے انتخابات میں کامیابی نوازلیگ کی کارکردگی سے ہی مشروط ہے مگر ان چار سالوں میں قوم کو بہت دکھ ملے ہیں لہذا ان حکمرانوں کواب جاتے جاتے کچھ اچھے کارناموں کو کرجانا چاہیے۔
میں سمجھتا ہوں کہ امریکی صدر کے بیان نے جہاں پوری دنیا کو پاکستان سے متعلق بولنے پر مجبور کیاہے وہاں اب پاکستان کی حکومت جو گزشتہ چار سالوں سے خود ہی ملکی معیشت کی خوشحالی کے ڈھنڈورے پیٹتی رہی ہے وہ اب قوم کو ثابت کرے کے ملک میں اقتصادی اور معاشی صورتحال اب بہتر ہوچکی ہے ؟ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر نواز لیگ نے پاکستان کواقتصادی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا کردیاہے تو پھر وہ کھلا اعلان کریں کہ اب ہمیں امریکی امداد کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ کہ پاکستان اب خود اقتصادی اور معاشی لحاظ سے مظبوط ہے اور یہ کہ ہمارے ملک کو اب کوئی بھیک یا امداد کی ضرورت نہیں ہے لہذا امریکا اب پاکستان کی امداد بند کردے اور آئندہ پاکستان کی سا لمیت کے متعلق کوئی بات نہ کی جائے اور نہ کبھی عالمی دنیا کے سامنے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کوپس پشت ڈالا جائے ۔ ؟ میں پوچھتا ہوں کہ کیا ہے پاکستان کے سابق یا موجودہ وزیراعظم یا پھر اقتصادی خوشحالی کی گٹار بجانے والے اسحاق ڈار میں یہ ہمت ؟ ہے کوئی جو آگے بڑھ کر امریکا کو کہے کہ اب ہمیں امداد نہیں چاہیے ؟۔میں سمجھتا ہوں کہ حکومت اور اس کے سارے پیادے عالمی بھکاری ہیں انہیں غیرملکی قرضوں اور آئی ایم ایف کے ڈالروں کی لت لگ چکی ہے ،یہ اس ملک کے حکمرانوں کا دستور بن چکاہے کہ جب اس ملک کی امریکی امداد بند ہوتی ہے تو آپ سے بندکرنے کی بجائے اس کی بحالی کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں جس کے لیے ملک کے غریب اور مسکین عوام کو گروی رکھا جاتا ہے حتیٰ کے کلمے کے نام پر حاصل کیا گیا پاکستان بھی یہودونصاریٰ کی جھولیوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔