30 جون 2005 کو بننے والے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمدّ چوہدری پاکستان کی عدلیہ میں سب سے لمبے عرصے تک رہنے والے چیف جسٹس ہیں جو اپنے عہدے پر تقریباً ساڑھے آٹھ سال تک فرائض سر انجام دیتے رہے۔ 30 جون 2005 سے ابتک جسٹس صاحب کی زندگی میں بہت سے عروج و زوال آئے۔ چیف جسٹس نے اپنا حلف اٹھانے کے فوراً بعد ہی عوام کی خدمت کا بیڑہ اٹھا لیا۔ یقینا اسی وجہ سے سابق ڈکٹیٹر اور اس کی ٹیم کو یہ بات نا قابل برداشت گزری۔ کیوں کہ چیف جسٹس کی جانب سے ہر معاملہ میں فوری ایکشن ڈکٹیٹر اور اس کی ٹیم کو بھی بہت سے مسائل میں الجھا رہا تھاجس کی سب سے بڑی مثال سٹیل مل کیس ہے وقت گزرتا گیا مارچ 2007 میں چیف جسٹس صاحب پر مشرف اور اس کے ساتھیوں کی جانب سے استعفے کا دبائو ڈالا جانے لگا۔ کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ لیکن جسٹس صاحب اپنی ناں پر ڈٹے رہے تن تنہا تندی بادِ مخالف سے الجھتے رہے اور جواباً انکار کی صورت میں اس وقت کی حکومت نے افتخار چوہدری کے خلاف سپریم جوڈیشنل کونسل میں بدعنوانی پر مشتمل ریفرنس دائر کی اور انکو معطل کر دیا گیا۔
شاید جسٹس صاحب کو معطل کروانا ہی پرویز مشرف اور اسکی ٹیم کے انجام کا سبب بنا وگرنہ ہو سکتا ہے ڈکٹیٹر کا دور حکومت اور بھی لمبا ہوتا۔ 20 جولائی 2007 کو افتخار محمدّ چوہدری دوبارہ اپنے عہدے پر بحال ہو گئے۔ اور انہوں نے اپنے فرائض کو دوبارہ ادا کرنا شروع کر دیا۔ اور اس بار بھی جسٹس صاحب اپنے کام میں ایسے مگن تھے کہ ہر شہری کو انصاف کی فراہمی بلا تعطل دینے کاارادہ رکھتے تھے۔ لیکن اب کی بار بھی جسٹس چوہدری کو صرف چار ماہ ہی ملے۔ اور 3 نومبر 2007 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے ایمرجنسی لگا دی گئی۔ آئین معطل کر دیا گیا اور اسی ایمرجنسی کی آڑ میں جسٹس صاحب کو بھی بر طرف کر دیا گیا۔ اور انکی جگہ عبدالحمید ڈوگر کو چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا۔ چیف جسٹس سمیت تمام برطرف جج صاحبان کو انکے گھروں میں اہلخانہ سمیت نظر بند کر دیا گیا۔ اور ساتھ ہی وکلا کی جانب سے ہڑتالیں جلسے جلوس شروع ہو گئے۔
Ashfaq Parvez Kayani
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جسٹس صاحب کے بہت سے ساتھی جج صاحبان انکا ساتھ چھوڑتے چلے گئے۔ اور جسٹس عبدالحمید کی ٹیم کا حصًہ بنتے گئے لیکن اس سب کے باوجود افتخار چوہدری نے ہمت نہ ہاری اور اپنے موقف پر ڈٹے رہے وہ سمجھتے تھے کہ میں ہی قانونی اور آئینی طور پر چیف جسٹس آف پاکستان ہوں۔ اور یقینا وہ اس سوچ میں حق بجانب تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وکلا تحریک زور پکڑتی گئی اور اسی تحریک کے دوران ملک میں الیکشن کا انعقاد ہوا۔ اور ان الیکشن میں پاکستان پیپلزپارٹی کو کامیابی ملی۔ اور پیپلزپارٹی نے بھی ایک سال تک جسٹس چوہدری کو بحال نہ کیا۔ لیکن جیسے ہی مارچ 2009 میں وکلا کی جانب سے لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا اس لانگ مارچ میں تمام سیاسی جماتیں اور بچے، عورتیں، اور ہر عمر کے لوگ شامل تھے۔ اور لانگ مارچ شروع ہو گیا اور اسی لانگ مارچ کے دبائو اور آرمی چیف (ر) جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مداخلت سے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی جانب سے افتخار محمدّ چوہدری کو 21 مارچ 2009 سے دوبارہ بہال کر دیا گیا۔
ججز بہالی کی کاوش میں وکلا تحریک نے بہت اہم کام سر انجام دیا۔ وکلا تحریک کو چلانے والے منیر اے ملک اور علی احمد کرد او ر اعتزاز احسن اور انکے تمام ساتھیوں کی کوششوں کو بھی نظرانداز نہیں کر سکتے۔ افتخار محمدّچوہدری نے پاکستان میں مضبوط عدلیہ کی ایک ایسی مثال قائم کی ہے جس کا کوئی ثانی نہیں۔ سٹیل مل کیس ہو یا اصغر خان کیس، سوئس بنک کیس ہو یا لاپتہ افراد کا کیس یا ہو کراچی بد امنی کیس۔ ہرمعاملہ میں انکا کردار ایک اہم پیش رفت ثابت ہوا۔
یقینا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہر اس شخص کو عدلیہ میں حاضر ہونا پڑا جس کے بارے میں شاید عوام خواب بھی د یکھنا مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ جسٹس صاحب ہی کے دور میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالتی حکم نہ ماننے پر کچھ لمحوں کی سزا دے کر بر طرف کر دیا گیا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے آنیوالے جج صاحبان کے لیے ایک مثال قائم کر دی ہے کہ جرم کرنے والا چاہے کوئی بھی ہو وہ چاہے حکومتی ارکان ہوں یا سرکاری اہلکار کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔ اور بالادستی اگر ہے تو وہ صرف قانون کی نہ کہ کسی فرد واحد کی یا مطلق العنان شخصیت کی۔