تحریر : میر افسر امان ہمارے ملک میں میڈیا آزاد ہے۔ یہ اچھی بات ہے، ورنہ کسی زمانے میں خبروں کو چھپایا جاتا تھا اور پاکستانی غیر ملکی ریڈیوبی بی سی کی خبروں پر انحصار کرتے تھے۔ بی بی سی خبروں کو اپنے مطلب میں رنگ کر پیش کیا کرتا تھا۔اگر کسی ملک کا میڈیااپنے ملک کے آئین،مذہب، روایات اور تہذیب تمدن کو مدِ نظر رکھ کر میڈیا کی آزادی کو استعمال کرے تو تو ملک صحیح سمت چلتا ہے۔ ڈکٹیٹر مشرف کی ہی مثال سامنے رکھ کر دیکھی جائے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ میڈیا ایک چلے ہوئے کارتوس کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کر رہا۔جب کہ پاکستان کی ساری خرابیوں میں ڈکٹیٹر مشرف کا ہاتھ ہے۔ سب سے پہلے اس نے بزدلانہ فیصلے کیے۔ اس کے بعد پاکستان کا کمانڈو سپہ سالار ہونے کے ناتے اس کی ایک شناخت تھی جسے اس نے مجروع کیا۔ پہلے متحدہ مجلس عمل سے جھوٹاوعدہ کر اپنے حق میں بل پاس کروایا۔پھر دردی اُتارنے کے وعدے سے مکر گیا۔ گھر سے عدالت میں پیش ہونے کے لیے نکلا اور بیماری کا بہانہ بنا کر فوجی ہسپتال میں داخل ہو گیا۔ ایک بار پھر بیماری کا جھوٹ بول کر ملک سے فرار ہوگیا۔وہاں جا کر ڈانس کرنے لگا۔ اب ایک نجی ٹی وی شور میں کہہ رہا ہے کہ جس دن نواز شریف اور سابق چیف جسٹس افتخار احمدملک سے باہر جائیں گے تو میں ملک کے حالت دیکھ کر واپس پاکستان آئوں گا۔ جہاں تک ڈکٹیٹر مشرف کے بزدلانہ فیصلوں کی بات ہے توجب امریکہ نے افغانستان میں طالبان کی جائز اسلامی حکومت، جو پاکستان کی افغانستان کی تاریخ میں پہلی دوست حکومت تھی، کو ختم کرنے کے لیے بہانے تلاش کیے ۔ پاکستان کو دھمکی دی کہ یا وہ امریکا کے ساتھ یا امریکا کا دشمن ہے۔
افغانستان کی جائز حکومت کو ختم کرنے میں امریکا کی مدد نہ کی تو اسے پتھر کے زمانے میں دکھیل دیا جائے گا۔ امریکا کے سابق وزیر دفاع نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ہمارا خیال تھاکہ ہمارے نو(٩) مطالبات میں سے تین چار مطالبات مانے گا۔ مگر ہمیں حریت ہوئی کہ ہمارے نو کے نو مطابات مان لیے ۔ڈکٹیٹرمشرف نے لاجسٹک سپورٹ کے نام پر بحری، بری اور فضائی راستے امریکا کو دے دیے۔ پھر امریکا نے اس لاجسٹک سپورٹ کو استعمال کر کے پہلے سے تباہ و برباد افغانستان کو تورا بورا بنا دیا۔طالبان ڈکٹیٹرمشرف کے فیصلے کی وجہ سے پاکستان کے مخالف ہوئے اور کہا کہ پاکستان نے امریکا کے ساتھ مل کر ہمیں تباہ کیا اس لیے امریکا کی طرح پاکستان بھی ہمارا دشمن ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کی۔ پھر اس پر بھی نہیں رُوکا۔ دنیا میں مروجہ سفارتی اخلاقایات کی نفی کرتے ہوئے پاکستان میں افغانستان کے تعینات سفیر ملا ضعیف کو امریکا کے حوالے کیا۔ پاکستان سے چھ سو(٦٠٠) مسلمانوں کو پکٹر پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا۔ نہ جانے کہ کوئی خفیہ معاہدہ ہے کہ اُس وقت سے اب تک جہادیوں کو گرفتار کرپاکستان میں قید کیا جا ررہا ہے۔ پاکستان کے مایا ناز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر قدیر خان کو پہلے میڈیا میں ذبردستی کے لیے گئے انٹرویو کے تحت بدنام کیا پھر امریکا کے حوالے کرنا کا ارادہ کیا۔
پاکستان کی بیٹی حافظ قرآن ڈاکٹر عافیہ صدیقہ کو اس کے تین بچوں سمیت امریکا کو دیا جو اب تک امریکا میں ٨٦ سالہ جیل کاٹ رہی ہے۔ امریکا کو ڈرون حملے کرنے کی اجازت دی جس سے خود کش بمبار پیدا ہوئے۔ بچیوں کے مدرسہ حفصہ اسلام آباد پر فاس فورس بم مار زندہ جلا دیاجس سے بدلہ لینے کے لیے سوات میں حفصہ بریگیڈ بنے اورپاکستان میںدہشت گردی ہوئی۔(حوالہ سابق سفارت کارمرحوم اکرم ذکی کا ٹی وی انٹر ویو)ا مریکا اور مغربی دنیا کے خفیہ اداروں کے اہل کاروں اور این جی اورز کو کھل کر کام کرنے دیا۔جس پر سیف دی چلڈرن این جی اور کے غدارِ وطن ڈاکٹر شکیل نے جعلی ویکسین کا ڈرامہ کر کے امریکا کو شیخ اُسامہ کا ٹکانہ بتایا۔ بلیک واٹر کے دہشت گرد ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں پاکستانی شہریوں کو دن دھاڑے شہید کیا۔
امریکا اور بھارت نے اس موقعہ سے فائدہ اُٹھا کر فاٹا میں پاکستان مخالف دہشت گردوں کو دہشت گردی کی ٹرینینگ دینے کے لیے کیمپ قائم کیے۔ اس کی اطلاع ڈکٹیٹر مشرف کو دی گئی مگراس نے اس پر کوئی کاروائی نہیں کی۔حوالہ جنرل(ر) شاہد عزیر کی کتاب ” یہ خوموشی کہاںتک”۔ ١١٩سے پہلے نہ پاکستان میں دہشت گردی تھی نہ خود کش بمبار تھے۔ڈکٹیٹر مشرف نے یہ فیصلے اپنی فوج اور ملک کی سیاسی پارٹیوں کے مشورے کے بغیر کیے۔ بعد میں سیاسی پارٹیوں کو بلا بریفنگ دی کہ اگر میں ایسا نہ کرتا تو امریکا پاکستان پر بمباری کر کے اسے پتھر کے زمانے میں پہنچا دیتا۔کیا یہ سارے ڈکٹیٹر مشرف کے بزدلانہ فیصلے نہیں تھے؟امریکا نے دھمکی دی تھی تو ملک کی سیاسی پارٹیوں، کور کمانڈرز کی میٹنیگ بلا کر اجتماہی فیصلے کیے جا سکتے تھے۔ مگر ڈکٹیٹر مشرف نے ایسا نہیں کیا۔کیااب پھرامریکا کے صدر ڈ نلڈ ٹرمپ کی دھمکی پر پاکستان میں مشاورت نہیں ہو رہی؟قابینہ کی میکٹنگ ہو رہی ہے۔
سپہ سالار نے کور کمانڈرز کی میٹنیگ بلائی۔فوج کی طرف سے بیان آیا بس اب بہت ہو چکا ۔امریکا پاکستان سے ڈو مور چاہتا ہے۔ہمارا جواب نو مور ہے۔قومی سلامتی کی میٹینگ بلائی گئی جس میں ٹرمپ کے کا بیان کو مسترد کر دیا گیا۔کہاگیا کہ ٹرمپ کا بیان نا قابل فہم ہے۔پاکستان کی قربانیوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔پاکستان نے دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے شہری اور فوجی شہید کروائے۔ابتدائی طور پر دہشت گردی کے خلاف خود پاکستان نے جنگ کی۔ اب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس بلانے کی بھی بات ہو رہی ہے۔یہ ہے مشکل میں ساری قوم کو شریک کرنے کا صحیح طریقہ جو ڈکٹیٹر مشرف نے استعمال نہیں کیا تھا۔اب ہم پاکستانی میڈیا کے کردار کی بات کرتے ہیں۔ہم عرض کر چکے ہیں کہ میڈیا کو اپنے ملکی آئین،اپنے معاشرے کے رواج،تہذیب و تمدن کو سامنے رکھ کر اپنی پروگراموں میں قوم کی تربیت کرنی چاہیے۔ کیا ہمارا میڈیا ایسا کر رہا ہے؟ جواب نفی میں ہے۔
پاکستان کا آئین اسلامی ہے۔ اس میں لکھا ہوا ہے کہ اسلام کے خلاف کوئی بھی بات نہیں کی جائے گی ۔میڈیا پر صبح کے پروگرام ایسے لگتے ہیں جیسے مغرب میںعورتوں کے فیشن شو ہوتے ہیں۔ہندوانہ تہذیب کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اپنے قومی ہیروز کے دن کو برائے نام یا بل لکل بلیک آوٹ کیا جاتا ہے۔ اور فلمیں ہیروز کو پاکستانء نوجوانوں ے آئیڈیل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کا سبب بنے والے چلے ہوئے کارتوسڈکٹیٹر مشرف کو ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے پاکستان کے سارے دھکوں کا حل اسی کے پاس ہے جبکہ پاکستان میں سارے دہشت گردی کا ذمہ دار ڈکٹیٹر مشرف ہی ہے۔ہمارے میڈیا کو چاہیے کہ ملک کے آئین،مذہب، روایات اور تہذیب تمدن کو مدِ نظر رکھ کر میڈیا کی آزادی کو استعمال کرے۔ اسی سے ملک و قوم کا وقار بلند ہو گا۔ اللہ ہم سب کو اپنی پرامن مذہب اسلام پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔