تحریر: منشاء فریدی یوں سمجھیے کہ آمریت کا دور ہے جابجا ظلم و ستم کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔ ناانصافیوں کے واقعات رونماء ہورہے ہیں ہر پاور گروپ کمزور پر حاوی ہے جسے وہ اپنی روزی روٹی کا ذریعہ بنا کر اس کا استحصال کررہا ہے حسب سابق امیر امیر تر اور غریب غریب ترہوتا جارہا ہے محکمے ہیں کہ ہر عام آدمی کو لوٹنے کی سفاک حکمت عملیاں متعارف کراتے رہتے ہیں ۔افسر شاہی اور اسٹیبلشمنٹ ( قوت حاکمہ) کاوطیرہ ہے کہ کسی طرح عوام کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزار کر کمزور ترکیا جائے جب بھی کوئی نیا قانون پاس کر کے نافذ کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس کا نفاذ اور اطلاق عوام پر ہوتاہے جبکہ اقلیتی طبقہ خواص اس سے مستثنی قرار پاتا ہے طاقتوروں کو اس لیے استثنی دیاجاتا ہے کہ وہ خود مقدس قانون ساز قرار پاتے ہیں یا اسٹیبلشمنٹ کے کارندے۔۔ْ!
رفتہ رفتہ دنیا سے مذہبی عصبیت کا اثرو رسوخ بھی کم ہورہاہے مگر اب بھی مشنری یا تبلیغ کے نام سے گروہ موجو د ہیں جو انسانوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے پر عمل پیرا ہیں جو مجموعی معاشرتی تنگ نظر ذہن سازی کے آگے ہتھیار ڈال کر اپنے اذہان علم و تحیقق سے منورکر رہے ہیں ان گروہوںکو چند طاقتیں پرموٹ Permote کرتی ہیں جن کے اپنے Strategic plans ہیں ۔یہ طاقتیں اپنے ڈپلو میٹک مفادات کو پراکسی وار کے لیے استعمال کرتی ہیں ایک عام آدمی اللہ کی رضا کے لیے ان نام نہاد مبلغین دین یا مشنریز کے احکامات پر عمل کرتا ہے مگران کے امیر کسی نادیدہ قوت کے لیے استعمال ہورہے ہوتے ہیں اس طرح سے یہ مخصوص تبلیغی عمل باعث ثواب ہرگز نہیں ہوتے اسی طرح اس سے ہرگز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں انصاف کا بول بالا تھا یا سب اچھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔؟
Policies
موجودہ دور میں بھی یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ ایسی پالیساں متعارف کی جارہی ہیں جن کے مقاصد محض عوام کا استحصال ہے یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ اس وقت ایک مفکر شدید خطرات کے سائے تلے زندگی گزار رہا ہے اورایک طرح سے سچ کے لکھاریوں کو ان کی سوچ سمت مصلوب کرنے کے احکامات جاری ہونے والے ہیںویسے یہ عمل تسلسل کے ساتھ جاری ہے کہ آزادی افکار پر شب خون مارے جاتے ہیں جیسا کہ راقم الحروف پر سنگین دفعات کے مقدمات کا اندراج ۔۔۔۔۔! جو کہ محض انتقامی بنیادوں پر تھے ۔جیسا کہ عرض کرچکا ہوں کہ مخصوص افکار کی تبلیغ و اشاعت کرنے والے گروہ جو اس وقت مسلح بھی ہو چکے ہیں اور جن پرہمارے مقدس قانون سازوں کا بھی ہاتھ ہے کسی خفیہ طاقتوں کے اشاروں پر چل رہے ہوتے ہیں معاشرے میں بے چینی اور بگاڑ کی باعث ہیںایسے نظریات آخرکیوں کر پنپ رہے ہیں ۔۔۔۔۔؟
جس کاجواب ڈھونڈنے کی اشد اور ہنگامی ضرورت ہے یقینا اس سے اختلاف کیا جائے گا۔۔۔۔جس سے راقم کو کوئی غرض نہیں کہ رد عمل میں اپنی ذات کے لیے خطرات پیداہوں گے اور فزیکلی تھریٹ ہوں گا۔۔۔۔۔ایک چھوٹی سی مثال ۔۔۔۔جب قانون نافذ کرنے والے اورحساس اداروں میں انہتا پسند ،شدت پسند اور مذہبی جنونیوں کو ان مقاصد کے لیے تعینات کیا جائے گا کہ وہ مخصوص نظریات و افکار کورائج کرکے شدت پسندانہ ماحول پیدا کریں گے تو یقینا مسائل پیدا ہوں گے جن سے طویل عرصہ سے پاک آرمی نمٹ رہی ہے اور ان گنت قربانیا ں دی جاری ہیں اس وقت چوٹی زیرں لغاری سرداروں ( یہ سردار مذہبی حوالے سے مخصوص فرقے کو نوازنے کے عمل میں مصروف ہیں ) کا بھی آبائی قصبہ ہے میں قانون سازوں کی سفارش پر مذہبی جنونی اشرف قریشی نامی شخص ایس ایچ او تھانہ تعینات ہے جس نے نا صرف شہریوں کو خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔
Journalism
بلکہ موصوف صحافت جو کہ ریاست کا چوتھا ستون ہے پر بھی قد غنیں لگارکھی ہیں علاوہ ازیں جمعہ کے روز بازار کی جبری بندش بھی موصوف کے انتہا پسندانہ نظریا ت کامظہر ہے کیا وطن عزیز پاکستان کے آئین میں جمعہ کے روز یا نماز جمعہ کے اوقات میں بازاروں کو جبری بند ش کے احکامات ہیں یہاں یہ سوال بھی حل طلب ہے کہ کیا اسلام میں بھی ایسے احکامات موجود ہیں کہ جمعہ کے روز زبردستی یا جبری بندشیں ہوں ۔۔۔؟اس ضمن میںمزیدوضاحت۔۔۔۔اگر اسلام آباد میں لال مسجد والے اسی طرح کے عمل کا پرچار کریں تو ریاست کے دشمن قرار پائیں ۔۔۔ اگر وزیر ستان ، سوات یا افغانستا ن میں طالبان نامی گروہ ہوبہو یہی عمل انجام دے تو طالبان / دہشت گرد گردانے جائیں ۔۔۔اور ۔۔۔اگر کراچی میں متحدہ والے ہڑتال کے نام پر کاروبار یا بازار مبینہ طور پر جبر اً بند کرائیں تو ” را ” کے ایجنٹ قرار پائیں۔
اور ۔۔۔اور ۔۔۔ اگر اشرف قریشی ۔۔۔چوٹی زیریں میں سوفیصد اسی طرح کے دہشت گردانہ عمل کی تبلیغ شروع کردیں تو ایماندارکہلائے ۔۔۔۔۔؟ میر ی ناقص رائے کے مطابق مخصوص مذہبی گروہوں کو ایک طرح سے فتویٰ کی دلیل دی جاری ہے کہ موصوف کے تبادلے کے بعد یہ عمل جاری رہنا چاہیے ۔ بصورت دیگر خو ن ریزی کا ماحول پیدا کیا جائے۔ بحثییت غیر جانبدار قلم کار اور تجزیہ کار اعلی عدلیہٰ سے اس بارے نوٹس لینے کی عرضی پیش کی جارہی ہے تاکہ وطن عزیز سے تنگ نظری اور سستی شہرت حامل افسران کے ناپاک نظریات سے جان چھڑائی جا سکے۔