آمریت کی بات کرنے والا پارلیمنٹ اور جمہوریت کا دشمن ہے، عمران خان فوج کو بلانے کی باتیں نہ کریں

karachi

karachi

کراچی: جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا ہے کہ یہ طے ہے کہ حالات کیسے بھی ہوں اب کسی چور دروازے سے حکومت میں شامل ہونے کی کوشش نہیں کی جائے گی، تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں، اب کوئی در پردہ کسی جرنیل کو دعوت نہیں دے گا کہ شراکت داری میں مخلوط حکومت قائم کی جائے۔

فوجی آمریت نے پاکستان کو دو لخت کردیااوراب قوم آمریت کو قبول کرنے لئے تیار نہیں ہے، ایسے میں اس طرح کی باتیں نہ کی جائیں کہ قوم کے احساسات اور جذبات کو مجروح کیا جائے، ماضی میں جرنل سکندر مرزا، جرنل ایوب، جرنل یحیی، جرنل ضیائ، جرنل مشرف فوجی آمریت کو لا کر مہم جوئی کا شوق پوا کر چکے ہیں، جس کے نتائج اور نقصانات پاکستانی قوم اور مملکت آج تک بھگت رہی ہے،ہمیں معاشی اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں جتنے بھی مسائل درپیش ہیں وہ آمریت کی باقیات ہیں۔

آمریت کا مضمون قابل نفرت گفتگو قرار دی جائے، آمریت کو بڑھاوا دینی والی روایت قابل مذمت ہے، مملکت خداداد پاکستان فوج نے نہیں بلکہ عوام نے حاصل کیا تھا اور عوام کا نظام جمہوریت ہے، ماہنامہ احوال کے حوالے سے منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ آمریت کی بات کرنے والا پارلیمنٹ اور جمہوریت کا دشمن ہے، عمران خان فوج کو بلانے کی باتیں نہ کریں، قوم اب باشعور اور بیدار ہے، اآمریت کے خلاف مثال پاکستان میں بھی بن سکتی ہے، چور دروازے سے حکومت میں آنے والوں کاتعاقب کرینگے، سیاسی جنگ آئینی تقاضوں کے مطابق لڑی جائے، طیب اردگان اور ترک قوم کو مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ ان کی جمہوریت نے سر اٹھا کر جینا سیکھ لیا ہے۔

عمران خان کے بیان کے حوالے سے شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا ہے کہ عمران خان کے بیان نے پاکستان میں جموریت کے حصول کے لئے لڑنے والوں کو صدمہ دیا، قوم سے معافی مانگیں، فوج ان کے بیان سے لا تعلقی کا اظہار کرے، کے حکومت سے ہزار اختلاف ہونگے جو انتہائی حد تک سنگین بھی ہو سکتے ہیں مگر ہماری غیر جمہوری و غیر آئینی جدوجہد پر یقین نہیں رکھتی ہے، جس آئین کے تقدس اور اس کی حفاظت کے لئے ہمارے اکابرین نے قربانیاں دیں ہم کیسے اس آئین کی دھجیاں اڑا سکتے ہیں، قوم کو صالح اور دنشمند قیادت کی ضرورت ہے، جو تعمیری سوچ کے ساتھ ملک میں مثبت تبدیلیوں کا آغاز کرے۔