تحریر : شاہ بانو میر فرمان الہیٰ ہے کہ “”اور جب کسی کا مقرر وقت آجاتا ہے تو اللہ اسے ہرگز مہلت نہیں دیتا جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے بخوبی جانتا ہے”” نہ اونٹ تھے نہ ریگستان نہ چلچلاتی دھوپ سر پے اور نہ پانی کے مشکیزے زادِ راہ کے نام پر خشک میوہ جات نہ گُڑ نہ ستو نہ قزاقوں کا خوف ۔ نہ درندوں کا ڈر ۔ جستجو کیلئے طلب کیلیۓ پہلے ادوار سے علم ہم تک انہی بہادروں کے ذریعے پہنچنا ممکن ہوا جو قرب الہیٰ اور سنت رسول کی تلاش میں ان تمام خطرات سے نبرد آزما ہو کر کبھی قافلوں کی صورت تو کبھی تنہا قصد سفر کرتے اور علم حاصل کرتے سیکڑوں کوس کی مسافت کو مہینوں میں شدید سفری مصائب کے ساتھ جھیل کر بلاخر ہمارے لئے کچھ نہ نہ کچھ سرمایہ اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو جاتے اور آج یہ اسلام کا نور قرآن کی روشنی انہی کی وجہ سے ہے۔
پاکستان گئی تو ایک ایسا سفر انہی مناظر کو سوچتے دیکھتے گزار کر اسلام آباد جا پہنچی “” الھدی”” کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ، محترمہ استاذہ جو استادوں کی استاد ہیں فرحت ھاشمی صاحبہ سے ایک ملاقات کرنے کیلیۓ۔ زمانہ قدیم سے رواج چلا آ رہا ہے کہ شاگرد استادوں کی ملاقات کیلیۓ صحرا نوردی کرتے بیاباں کھنگالتے قدرتی آفات سے لڑتے علم کی شمع کی لو کو اور بڑھاتے۔ انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان میں عصر حاضر کی سب سے بڑی اور مستند اسلامی اسکالر سے ملاقات اللہ کے فضل کے سوا بلاشبہ کچھ نہیں تھا۔
ان کی باتیں ان کا چہرہ ان کا انداز تکلم سبحان اللہ استاذہ فرحت ھاشمی صاحبہ کے مرکز میں جہاں سبحان اللہ نگاہوں کو خِِیرہ کر دینے والی علم کی قرآن کی روشنی کو ہر جانب سے پھوٹتا دیکھا، آخر وہ مبارک گھڑی آ گئی کہ جس میں میں نے استاذہ کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا اللہ اکبر ٌ درمکنون پہلی سوچ یہی ابھری ، استاذہ کلاس میں بخاری شریف پڑھا رہی تھیں ، کیا ملائم لب و لہجہ سادہ انداز بیاں اور ضخیم کلام ۔ میں دائیں جانب سب سے آگے بیٹھی ہوئی تھی کلاس ایک کشادہ ھال میں ہو رہی تھی۔ علم کیلیۓ عمر کی حد نہیں یہ خیال وہاں سب سے آگے وہیل چئیر پر بیٹھیں ایک بزرگ خاتون کو دیکھ کر آیا۔ یاد رہے اس سے پہلے مجھے قطعی علم نہیں تھا کہ استاذہ کی والدہ حیات ہیں، مگر اس قدر عمر رسیدہ خاتون بخاری شریف کی کتاب ہاتھ میں تھامے جس انہماک سے اسے پڑھ رہی تھیں یا اس کو پڑھتے ہوئے کلاس میں استاذہ کا درس سن رہی تھیں۔ سبحان اللہ ایسی عمر کہ جب ہمارے بزرگ اٹھنے بیٹھنے حتیٰ کہ کروٹ لینے سے عاجز ہوتے ہیں۔ ایسی عمر کی ایک طالبہ ان کی مضبوط قوت ارادی اور اسلام اور اللہ کےساتھ محبت کو بغیر بتائے ظاہر کر رہی تھی۔ نجانے میری چھٹی حس میں مسلسل ایک ہی سوچ گردش کرنے لگی ہو نہ ہو جس ماں نے ایسی عظیم اولاد پیدا کی یہ استاذہ کی والدہ ہو سکتی ہیں۔ کہ جن کو اللہ پاک نے قلب سلیم عطا کیا جس میں اس کی محبت کی قوت کے آگے ہر بیماری ہر نقاہت ہیچ ہے۔
میرے دل میں خواہش ابھری کہ کلاس کے بعد میں سب سے پہلے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام پیش کروں اور ان سے دعا لوں، ایسی عظیم ماں جس کی سادگی وجود سے ظاہر ہو رہی تھی مگر اس سادگی میں کیسی اللہ کی محبت تھی کہ آج ان کی اولاد ان کیلئے بہترین اعلیٰ انعام ثابت ہو رہی ہے ، دنیا میں بھی اور انشاءاللہ آخرت میں بھی۔ ایسی فرماں بردار نیک صالح اولاد کی جن کی گواہیاں پوری دنیا میں مستفید ہو کر اللہ سے جُڑنے والے دعاؤں کی صورت دن رات انہیں دے رہے ہیں۔ جن کی زندگی کا ہر لمحہ اطاعت خُداوندی میں گزر رہا ہے ۔ آج محنت ان کی ہے مگر اجر والدہ محترمہ کو مل رہا ہے۔ سبحان اللہ “”کلاس کے اختتام پرمیں نے اپنے ساتھ تشریف فرما محترمہ یاسمین خاکوانی صاحبہ سے پوچھ ہی لیا کہ وہ بزرگ خاتون کون ہیں؟ ٌ جواب حسب منشاء سماعت سے ٹکرایا کہ وہ استاذہ کی والدہ ہیں اور مستقل اسٹوڈنٹ ہیں، کلاس کبھی مِس نہیں کرتیں سوائے انتہائی بیماری یا سفر کی غیر حاضری کی وجہ سے “” میرا بہت دل چاہ رہا تھا کہ اس ماں کی خدمت میں حاضری دوں جو ہم سب کی روحانی بڑی ماں ہے۔
انہیں بتانا چاہتی تھی کہ ان کی اولاد کیسی صالحہ اور کیسی ہمدرد ہے کہ جس نے ذاتی دکھوں سے نجات حاصل کر کے ہم جیسے امتیوں کا دکھ دل میں بسا لیا ہے۔ اور ہم جیسے ناکام و نامراد لوگوں کو کیسے کامیاب و کامران بنا دیا ہمیں اللہ سے جوڑ کر نئی زندگی کی نئی کامیابی دلائی ہے۔ نجانے کیوں میں جھجھک میں رہ گئی مُبادا میرا اس طرح والدہ کے پاس جانا نمائش نہ لگے مگر انہیں بار بار دور تک دیکھتی رہی۔ استاذہ سے سلام لے کر پھر تفصیلی ملاقات کے لئے ان کے گھر جانے لگی تو دیکھا کرسی وہاں نہیں تھی۔ خلش سی دل میں رہ گئی کہ مجھے پہلے ان کے پاس جانا چاہیے تھا جن کی وجہ سے آج یہ عظیم الشان مرکز چوبیسوں گھنٹے ہدایت کی طرف بلا رہا ہے ۔ علم کا نور بانٹ رہا ہے۔
ان کی وفات کا سنا نمازہ جنازہ سے پہلے محترم سر ادریس کا درس سنا وہ کہ رہے تھے کہ گواہیوں کی بات کر رہے تھے۔ اس عظیم ماں کی عظیم اولاد نے جو اس ظلمت کے دور میں اپنی مخلصانہ کاوشوں سے اسلام کے بجھتے جلتے دیے کو مستقل روشنی فراہم کی ہے وہ اس ماں کی تربیت اور پرورش سے ہی ممکن ہوئی ہے ۔ ان کے لئے کچھ نہیں انشاءاللہ لاکھوں گواہیاں دنیا کے ہر کونے سے ملیں گی۔ اور یہ ان کی نیک پاکیزہ اولاد کی خدمات کی وجہ سے ہے۔
اپنی نیک صالحہ اولاد کی صورت کیا حسین سرمایہ چھوڑ کر جا رہی ہیں کہ ماں کی جدائی کا غم بھی اولاد نے امت کی بھلائی کی سوچ کے ساتھ یوں بانٹا کہ غم بھی ظاہر ہوا اور ساتھ ہی ساتھ سنت کی بہترین ترجمانی بھی ہر مرحلے پر ہوئی۔ وفات سے دفنانے تک تمام معاملات میں اسلام کو بنیاد بنا کر انہیں آخری لحد میں اتارا گیا۔ بہترین صدقہ جاریہ وہ نشانات(انکی اولاد) جو ان کے لئے اگلی دنیا میں انعامات تحائف کی وجہ بنیں گے۔
علم کی یہ پیاس جو زندگی کے آخری سانس تک حصول علم سے بجھاتی رہیں صرف اللہ کا خاص کرم اور اس کا فضل ہے۔ ایسی نیک دیندار بیٹیاں کہ اپنے شہر گوجرانوالہ جہاں کہیں رشتے داروں کی طرف گئی سبحان اللہ ان کا ذکر ان کے ادارے اور ان کی تیار کی ہوئی نوجوان بچیاں پوری طاقت کے ساتھ گھروں کے اندر موجود طاغوت سے ٹکرا کر بیداری شعور پیدا کر رہی ہیں۔
موجودہ تیز رفتار دور میں جب صرف اپنی ذات کی بقا انسانوں کی سوچ رہ گئی ایسے میں یہ گھرانہ ایسی اولاد کا ہونا اللہ کی شانِ کریمی اور اس کی عطا کے سوا کچھ نہیں۔ عظیم ماں ہم سب کی طرف سے اللہ سے اعلیٰ ترین درجات کے ساتھ بہشت نعیم جو ارفع مقام پر ہو اس کی دعا ہے۔ چشم دید گواہی تھی جو میرے ذمہ تھی جو دیکھا جو سنا جو محسوس کیا وہ لکھا اللہ سبحان و تعالیٰ ہم سب کا موت کا سفر آسان کر دے آمین آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے آمین۔