چلو کہ آئو زمانے سے اختلاف کریں روایتوں سے کھُلے عام انحراف کریں چلو کہ آئو زمانے سے اختلاف کریں لپیٹ دے جو بساطِ ادائے بے خبری جو تُو کہے تو کوئی ایسا انکشاف کریں یقیں کرو کہ دسمبر کی سرد راتوں میں یہی بہت ہے تیرے ہِجر کو لحاف کریں یہ ایک دل ہی اکیلا تو ہے تیرے حق میں کسی کے کہنے پہ اِس کو تیرے خلاف کریں زمانہ ہم سے یہی چاہتا ہے کہ وہ گناہ کبھی کِیے نہ جو اُن کا بھی اعتراف کریں اب اس قدر بھی توقع نہ باندھنا ہم سے کہ دوستی میں چھُپی دشمنی معاف کریں اٹے ہوئے ہیں ابھی جِن کے دھول سے چہرے وہ چاہتے ہیں میرے آئینے کو صاف کریں