تحریر : رانا عبدالرب اختلافات کسی بھی معاشرے کا حسن ہوا کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جس معاشرے میں دو رائے نہ ہو وہ جمود کا شکار ہوکر تاریخ کی گرد میں کہیں کھو جاتی ہے اور یوں معاشرہ ایک شو پیس کی صورت میں عوام کے سامنے تو رکھا جا سکتا ہے لیکن اس میں کہیں کوئی بھی رمک موجود نہیں ہوتی۔ کیوں کہ رائے رکھنے کے لئے دلیل کا ہونا اور دلیل کے لئے وسیع تعلیم اور روشن خیالی کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ ہمارے معاشرے میں جس میں قارئین اور راقم زندہ ہیں اس میں یہ خال خال ہی ملتے ہیں۔
بات چونکہ اختلاف اور دلیل کی ہورہی ہے تو اس بات کو جاری رکھتے ہوئے ایک قومی اخبار میں چھپنے والے (پاکستان کے معروف کالم نگارکے ) مضمون ”ڈی سی او لیہ کی گڈگورننس پر سوالیہ نشان؟”میں موصوف نے بیوروکریسی پر کھل کر تنقید کرتے ہوئے ضلع لیہ کی بیوروکریسی پر کھل کر برسے (جو کہ بجا برسے)۔جبکہ انہوں نے ضلع لیہ میں یونین سازی کی تقسیم کا سہرا بھی موجودہ بیوروکریسی کے سر سجایا۔راقم اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ لارڈ میکالے کے دورمیں ایسے آفیسران عوام پر مسلط کئے گئے جن کا ایک ہی مقصد تھا کہ عوام پر خادم کی بجائے حاکم بن کر رہا جائے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
Differences
مذکورہ ڈائری میں موصوف نے لیہ کی صحافتی برادری کی تقسیم کی بات بھی بڑے شد ومد میں بیان کی۔جس پر راقم الحروف شدید اختلاف کرنے کے ساتھ ساتھ تحفظات رکھتا ہے۔راقم کی معلومات کے مطابق پاکستان بھر میں ضلع لیہ ہی وہ واحد ڈسٹرکٹ ہے جہاں ایک پریس کلب ہے (جبکہ دیگر اضلاع میںبے شمار پریس کلبز موجود ہیں)۔جس کے موصوف(جن کے نام سے ڈائری شائع ہوئی خود ایک ذیلی تنظیم کے صدر بھی ہیں)۔اگر اسی بات کو موصوف کے سامنے دلیل کے طور پر رکھ دوں تو امید کی جاسکتی ہے کہ انہیں جواب مل گیا ہو گا۔ہاں یہ الگ بات جب آپ کسی بھی چھت کے نیچے رہتے ہیں وہاں ایک کو دوسرے کی رائے سے اختلاف ممکنات میں سے ہے اور اس میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کہ” اختلافات معاشرے کا حسن ہوا کرتے ہیں۔
بات چونکہ دلیل کی ہورہی ہے تو یہاں یہ بات بھی زیر بحث لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جب آپ اپنے گھر کے فیصلے گھر کی بجائے آپ خود ضلع کی بیوروکریسی پر چھوڑیں گیں تو آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہی بیوروکریسی آپ کو متحد دیکھ سکتی ہے کیوں آپ نے خود فرمایا کہ”بیوروکریسی منتشر کرو اور حکومت کرو”پر عمل پیرا ہے تو آپ کو آج یہ لکھنے کی ضرورت کیوں پڑی کہ صحافیوں کو بیوروکریسی نے تقسیم کیا۔
جناب فرکی تھوڑی الٹی گھمائیں تو یاد آئے گا کہ بیوروکریسی کے پاس پریس کلب کے فیصلے کروانے کون جاتا تھا؟جب آپ خود اپنی رسی کسی کے ہاتھ میں تھماتے ہیں تو پھر اس کے مرضی جس طرف مرضی لے جائے۔
اگر آپ اسی دن یہی بات لکھتے تو سمجھ میں بھی آتی (ایک فلم کا ڈائیلاگ ہے کہ ”درست فیصلہ درست موقع پر ہی اچھا لگتا ہے”)۔باقی رہی بات ڈپٹی انفارمیشن آفس کی تو وہاں تو یہ فیصلہ ہونا تھے نہ کہ کون سے دوست صحافی ہیں اور کون سے دوست صحافی نہیں ؟کس کا تعلق موصوف آفیسر سے زیادہ ہے جو ضلع کے اعلیٰ آفیسران تک دوستوں کے تعلقات میں اضافہ کرائے۔(ہاں اس بات سے اتفاق ضروری ہے کہ ڈپٹی انفارمیشن آفیسر ۔۔۔۔۔۔؟)رہی بات اختلاف کی آپ کو میری اس بات سے اختلاف ہو سکتا ہے راقم منتظر رہے گا۔